’دی گئی سزا انصاف کا مذاق‘، سپریم کورٹ نے بیوی کے قتل معاملہ میں 22 سال بعد شوہر کو بَری قرار دیا
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نچلی عدالتوں نے ثبوتوں کے غلط اور ادھورے جائزہ کی بنیاد پر سزا کا حکم جاری کرنے میں سنگین غلطی کی ہے جس سے ملزمین کے تئیں سنگین تعصب پیدا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسے شخص کو بَری قرار دیا ہے جسے تقریباً 22 سال قبل اپنی بیوی کے قتل کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اسے دی گئی سزا انصاف کا مذاق تھا اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اصلاح کرے۔ بنچ میں شامل جسٹس سنجے کرول نے کہا کہ شبہات ملزم کے جرم کی بنیاد نہیں بن سکتے ہیں اور ملزم کو جرم سے جوڑنے والے حالات بالکل بھی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ 2004 کے جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دینے والے گونا مہتو کے ذریعہ داخل ایک عرضی پر آیا ہے جس نے 2001 میں ٹرائل کورٹ کے ذریعہ سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ عرضی دہندہ کی بیوی کا اگست 1988 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش گاؤں کے کنویں میں ملی تھی۔ گونا مہتو کو بَری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ہم نچلی دونوں عدالتوں کے ذریعہ جاری احکامات کو رَد کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ چونکہ اپیل دہندہ پہلے سے ہی ضمانت پر ہے، اس لیے اس کی ضمانت کا مچلکہ ختم ہو جائے گا۔ اپیل منظور کی جاتی ہے اور اسے بَری کیا جاتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں جو ملزم کے جرم کو ثابت کر سکے۔ جسٹس کرول نے کہا کہ ملزمین کو اس جرم سے جوڑنے والے کسی بھی ثبوت کی تلاش نہیں کی گئی ہے، جسے ثابت کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
بنچ نے کہا کہ فریق استغاثہ کے ذریعہ مناسب اندیشہ سے پرے جرم ثابت کرنا تو دور کی بات ہے۔ نچلی عدالتوں نے ثبوتوں کے غلط اور ادھورے جائزہ کی بنیاد پر قصوروار ثابت کرنے کا حکم جاری کرنے میں سنگین غلطی کی ہے، جس سے ملزمین کے تئیں سنگین تعصب پیدا ہوا ہے جس کے نتیجہ کار انصاف کا بھی مذاق اڑایا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔