صدیق کپن ضمانت ملنے کے ایک ماہ بعد جیل سے رہا

صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہاتھرس میں ایک 20 سالہ درج فہرست ذات کی لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری اور موت کی خبر کرنے جا رہے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>صدیق کپن، تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ</p></div>

صدیق کپن، تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ

user

قومی آواز بیورو

غداری کے الزام میں گرفتار کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو آج یعنی 2 فروری کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ دو مقدمات میں ضمانت ملنے کے ایک ماہ سے زیادہ وقفہ کے بعد لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے آج ان کی رہائی کے حکم پر دستخط کر دیئے۔ ان کے وکیل نے کہا کہ تمام رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں لیکن رہائی کا حکم وقت پر جیل نہیں پہنچا اس لیے وہ آج جیل سے باہر آئے ہیں۔

اس سے قبل صدیق کپن کو بدھ یعنی یکم فروری کو رہا کیا جانا تھا، لیکن خصوصی عدالت کے جج بار کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔ قابل ذکر ہے کہ صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ 20 سالہ درج فہرست ذات کی لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری اور موت کی خبر کرنے کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔


پولیس نے صدیق کپن پر الزام لگایا تھا کہ وہ بدامنی پھیلانے کے لیے وہاں جا رہا تھا۔ اتر پردیش پولیس نے صدیق کپن پر غداری اور انسداد دہشت گردی کے سخت قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ فروری 2022 میں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی دائر کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اس نے ممنوعہ پیپلز فرنٹ آف انڈیا سے فنڈز حاصل کیے تھے۔

تاہم گزشتہ سال ستمبر میں انہیں دہشت گردی کے مقدمے میں اور دسمبر میں منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت ملی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صدیق کپن کو ضمانت دینے میں کافی وقت لگا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ صدیق کپن اور اس کے ساتھ گرفتار کیے گئے دیگر افراد کالعدم پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کے طلبہ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے رکن ہیں۔ تاہم، کپن نے دہشت گردی کی سرگرمیوں یا مالی معاونت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صحافتی کام سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔