سہارنپور گراؤنڈ رپورٹ: بی جے پی کی زبردست مخالفت کے درمیان بی ایس پی بھی لگا رہی زور، سہ رخی مقابلہ کے آثار
سہارنپور 40 فیصد مسلم اور 30 فیصد دلت آبادی والا ایسا ضلع ہے جسے اس کی خوشحالی کے لیے جانا جاتا ہے، لکڑی کی نایاب نقاشی والے فرنیچر کے لیے مشہور سہارنپور میں سب سے بڑا ایشو بے روزگاری ہے۔
بیہٹ کو پہلے مظفر آباد اسمبلی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ سہارنپور کے عمران مسعود اسی مظفر آباد سیٹ سے رکن اسمبلی چنے گئے تھے۔ اس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 2007 میں عمران مسعود بیہٹ سے سماجوادی پارٹی سے ٹکٹ مانگ رہے تھے، لیکن سماجوادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اس وقت وزیر رہے جگدیش رانا کو امیدوار بنا دیا۔ عمران مسعود کے چچا رشید مسعود سماجوادی پارٹی میں تھے۔ عمران مسعود نے پارٹی اور اپنے چچا سے بغاوت کر کے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور سماجوادی پارٹی امیدوار جگدیش رانا کو شکست دے دی۔ اس کے بعد 2012 میں عمران مسعود پراعتماد تھے کہ وہ بیہٹ سے انتخاب لڑیں گے، عمران مسعود سماجوادی پارٹی میں تھے۔
ملائم سنگھ یادو نے دہلی کے جامع مسجد کے شاہی امام احمد بخاری کی گزارش پر ان کے داماد عمر علی خان کو بیہٹ سے امیدوار بنا دیا۔ ناراض ہو کر عمران مسعود نے کانگریس پارٹی سے انتخاب لڑا۔ عمران نکوڑ اسمبلی سیٹ سے میدان میں آئے۔ دونوں انتخاب ہار گئے۔ بیہٹ کی لڑائی 2017 میں بھی ہوئی۔ عمر علی خان اور عمران مسعود دونوں اس بار انتخاب نہیں لڑے۔ عمران مسعود نے اتحاد میں نریش سینی کو لڑایا وہ کانگریس سے رکن اسمبلی بن گئے۔ اب وہ بی جے پی میں چلے گئے۔ اس انتخاب سے ٹھیک پہلے عمران مسعود سماجوادی پارٹی میں شامل ہو گئے اور بیہٹ سے انتخاب لڑنے کی قواعد میں مصروف ہو گئے۔ انھوں نے کانگریس چھوڑ دی اور سماجوادی پارٹی میں بیہٹ سے لڑنے کے لیے منتقل ہو گئے۔ بیہٹ انھیں پھر بھی نہیں ملی اور اب انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ لڑا رہے ہیں۔
سات اسمبلی سیٹ والے سہارنپور ضلع میں بیہٹ میں ایسا کیا ہے کہ یہی اسمبلی سیٹ گزشتہ 20 سال پورے ضلع کی اٹھا پٹخ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ بیہٹ کے کلیم ملک بتاتے ہیں کہ سہارنپور کی ساری سیاسی مہابھارت بیہٹ سیٹ سے شروع ہوتی ہے۔ اتر پردیش میں اسمبلی حلقوں کی گنتی بھی بیہٹ سے شروع ہوتی ہے۔ بیہٹ جغرافیائی طور سے بے حد خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ مسلم لیڈروں کو لگتا ہے کہ یہاں ان کی جیت کی گارنٹی ہے۔ لیکن اعداد و شمار ایسے ہوتے نہیں ہیں، کیونکہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس بار بھی اس کا امکان ہے۔
ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی سرحد سے ملحق غیر قانونی کانکنی کی زمین بیہٹ میں ماتا شاکمبری کا مندر ہے، تو رائے پور کی تاریخی خانقاہ بھی ہے۔ بیہٹ اسمبلی سیٹ سے سماجوادی پارٹی عمر علی خان کو لڑا رہی ہے۔ بی جے پی نے کانگریس سے آئے نریش سینی کو امیدوار بنایا ہے۔ بی ایس پی یہاں رئیس ملک کو لڑا رہی ہے۔ بیہٹ کی سیاست میں ذات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سبھی ذاتوں کی ایک دھری ہے۔ بڑے ٹھاکروں کی اس زمین میں پہلی بار کوئی ٹھاکر امیدوار حقیقی لڑائی سے باہر ہے۔ بھیم آرمی کے بانی چندرشیکھر آزاد کا گھر بھی اسی اسمبلی سیٹ میں آتا ہے۔ گھاڑ علاقے میں آنے والا بیہٹ میں لیڈروں کے بڑے نام تو رکھتا ہے لیکن کام نہیں رکھتا ہے۔ یہ بہاری گڑھ کے سمت کشیپ کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں بجلی پانی کا بھی مسئلہ ہے۔ ہر سال سیلاب فصلوں کو کھا جاتی ہے۔ اسکول اور طبی سہولیات بھی بے حد پچھڑی ہوئی ہے۔ امیروں اور غریبوں میں بنٹوارا بہت ہے۔ بدقسمتی سے عوام یہاں ایشوز پر ووٹ نہیں کرتی ہے۔ بیہٹ کے ایس اے زیدی کہتے ہیں کہ عوام اپنا حق مانگنے کے لیے جدوجہد کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ بیہٹ سونا اگلنے والی زمین ہے اور مقامی لوگ لیڈروں اور افسروں کے ایک سنڈیکیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں بے حد سہل سلوک کے لوگ ہیں۔ بیہٹ کے لوگوں پر گزشتہ پانچ سالوں میں روزگار کو لے کر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ ہزاروں کنبوں کا چولھا دھیما پڑ گیا ہے۔ بیہٹ نے بے روزگاری کی مار سب سے زیادہ محسوس کی ہے۔ یہاں فرقہ پرستی بھی بڑھ گئی ہے۔ سب حکومت بدلنا چاہتے ہیں۔
سہارنپور 40 فیصد مسلم اور 30 فیصد دلت آبادی کے ساتھ ایک ایسا ضلع ہے جسے اس کی خوشحالی کو لے کر جانا جاتا ہے۔ لکڑی کے نایاب نقاشی والے فرنیچر وغیرہ کے لیے مشہور سہارنپور میں سب سے بڑا ایشو بے روزگاری ہے۔ نوٹ بندی، لاک ڈاؤن اور سرکاری پالیسی نے گزشتہ کچھ سالوں میں کاروبار کی ریڑھ توڑ دی ہے۔ سہارنپور شہر کے سید اطہر بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ چار سال میں چھ کاروبار بدل چکے ہیں۔ اس دوران انھوں نے پرانی گاڑی فروخت کرنے کا کام کیا۔ وہ کسی نے نہیں خریدی، لکڑی کا کام کیا، کپڑے فروخت کیے، جوتے کی دکان کھولی اور اب ریسٹورینٹ میں شیئر کر لیا۔ گاہک نہیں مل رہے۔ جمع کیا ہوا پیسہ ختم ہو گیا ہے۔ قرض دار بن گیا ہوں۔ روزگار سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگائی ایشو ہے لیکن سہارنپور کا آدمی سمجھتا ہے کہ اس کا اچھا روزگار ہوگا تو وہ مہنگی چیزیں بھی خرید لے گا۔ جب پیسے ہی نہیں ہیں تو وہ سستی بھی نہیں خرید پائے گا۔ سہارنپور میں روزگار برباد ہو گیا ہے۔ ہزاروں نوجوان سڑک پر ہیں۔ روزگار سے سبھی متاثر ہوئے ہیں۔ سہارنپور ٹوٹ گیا ہے۔
سہارنپور شہر سے سماجوادی پارٹی سنجے گرگ کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ وہ یہاں سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔ 2017 میں وہ 4 ہزار کے فرق سے انتخاب جیتے تھے۔ مسلمان ان سے ناراض ہیں لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ سنجے گرگ تاجروں کے لیڈر بھی ہیں۔ صرف شہر میں ڈیڑھ لاکھ مسلم ووٹ ہیں۔ اس میں کوئی بنٹوارا نظر نہیں آ رہا۔ کانگریس سے سکھوندر کور انتخاب لڑ رہی ہیں۔ سکھ ووٹوں کا جھکاؤ ان کی طرف ہے۔ بی جے پی سابق رکن اسمبلی راجیو گمبر کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ سبھی مسائل کو درکنار کر انتخاب پولرائزیشن کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
سہارنپور دیہات میں سماجوادی پارٹی آشو ملک کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ آشو ملک سماجوادی پارٹی کے بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ وہ جس سیٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں بی جے پی جنرل سیٹ پر دلت طبقہ سے آنے والے جگپال سنگھ کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ یہ داؤ بڑا گہرا ہے۔ جگپال سنگھ اس سے پہلے 4 بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ایک بار جنرل سیٹ سے انتخاب جیتے تھے۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی جب وزیر اعلیٰ بنی تھیں تو جگپال سنگھ نے ان کے لیے اپنی اسمبلی سیٹ سے استعفیٰ دیا تھا۔ اب جگپال سنگھ بی جے پی میں ہیں۔ سہارنپور دیہات کی اس سیٹ پر ایک لاکھ سے زیادہ دلت ووٹ ہیں اور بی ایس پی سے یہاں عجب سنگھ امیدوار ہیں۔ پورے ضلع میں سب سے دلچسپ انتخاب اسی سیٹ پر ہو رہا ہے۔ یہاں جیت کا فرق سب سے کم رہنے کا امکان ہے۔
رامپور منیہاران سہارنپور کی ریزرو اسمبلی سیٹ ہے۔ یہ ایک ایسی سیٹ ہے جہاں بی جے پی لڑائی سے باہر نظر آ رہی ہے۔ بی ایس پی یہاں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اہم مقابلے میں ہے۔ بی ایس پی امیدوار سابق رکن اسمبلی رویندر مولہو ہے جو مقامی سطح پر اپنی مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے یہاں سے سابق رکن پارلیمنٹ جگپال کانت کے بیٹے وویک کانت کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وویک کانت کو امیدوار عمران مسعود کی پیروی کے بعد امیدوار بنایا گیا ہے۔ دھرم سنگھ سینی کو سوامی پرساد موریہ کا کافی نزدیکی مانا جاتا ہے۔ عمران مسعود دو بار دھرم سنگھ سینی سے نزدیکی فرق سے ہار چکے ہیں۔ اس بار دھرم سنگھ سینی کو جتانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے یہاں مکیش چودھری کو امیدوار بنایا ہے۔ مکیش چودھری کبھی عمران مسعود کے نزدیکی ساتھی رہے ہیں۔ یہ ایک سیٹ ہے جس پر سماجوادی پارٹی کافی پرامید لگتی ہے۔
مسعود فیملی کے آبائی خطہ گنگوہ اسمبلی پر بھی لڑائی سہ رخی بن رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں عمران مسعود کے سگے بھائی نعمان مسعود بی ایس پی سے میدان میں ہیں۔ ساجوادی پارٹی یہاں اندر سین کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ اندر سین کو لے کر مسلمانوں میں ناراضگی ہے۔ بی جے پی موجودہ رکن اسمبلی کیرت سنگھ کو لڑا رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مسلم ووٹ کا بنٹوارا اس سیٹ کا مستقبل طے کرے گا۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کا تجربہ بتاتا ہے کہ بنٹوارے کا امکان کم ہے اور انتخاب دو زاویوں پر مرکوز ہو رہا ہے۔
سہارنپور ضلع کی سب سے مشہور سیٹ دیوبند ہے۔ لڑائی یہاں بھی سہ رخی ہے۔ اہم مقابلہ بی جے پی، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں ہے۔ بی جے پی برجیش سنگھ کو لڑا رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے سابق وزیر راجندر رانا کے بیٹے کارتیکے رانا پر داؤ کھیلا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی نے گوجر طبقہ سے آنے والے راجندر سنگھ کو ٹکٹ دیا ہے۔ دیوبند سیٹ کی تصویر کافی دھندلی ہے۔ صاف طور پر یہاں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ دیوبند کی ارم عثمانی بتاتی ہیں کہ موجودہ حالات اس طرح کے ہیں کہ عوام حکومت بدلنے کو تیار ہے، اس لیے وہ بی جے پی کو شکست دینا چاہتی ہے۔ ووٹوں کی ریاضی اپنی جگہ ہے اور اکثریت میں عوام بی جے پی سے ناراض ہیں۔ رَنکھنڈی گاؤں کے انوبھو رانا کہتے ہیں کہ بی جے پی رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے بہت منفی کام کیے ہیں اور ٹھاکر طبقہ میں ہی ان کے تئیں ناراضگی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : حجاب کی آڑ میں کہیں کچھ اور کھیل تو نہیں ہے... سید خرم رضا
سہارنپور میں اس وقت بی جے پی کے پاس 4 رکن اسمبلی ہیں۔ دلتوں اور ٹھاکر میں شبیر پور واقعہ کے بعد کافی دوریاں بڑھی ہوئی ہیں۔ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے لگاتار یہ ضلع دلت استحصال کو لے کر موضوعِ بحث رہا ہے۔ نیا گاؤں رام پور کے ویپن جاٹو کہتے ہیں کہ ہم بابا صاحب کے ماننے والے لوگ ہیں، جمہوریت میں ووٹ ہی بدلہ لینے کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔ ہم اس کا استعمال کرنے جا رہے ہیں۔ دلت اور مسلمان دونوں آبادی یہاں تقریباً 70 فیصد ہے، اس کے علاوہ کچھ حکومت سے ناراض لوگ بھی ہیں۔ لیکن یہ 70 فیصد سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں منقسم دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی کی امید بھی اسی بنٹوارے پر مرکوز ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔