یو پی ایس سی امتحان میں کامیاب صدف چودھری، ’بیرون ملک سفیر بن کر ملک کی خدمت کرنے کی خواہش مند‘
صدف کی آل انڈیا رینک اور او بی سی کوٹہ کے پیش نظر ان کے پاس آئی ایف ایس حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔
روڑکی سے آس محمد کیف کی رپورٹ
یو پی ایس سی کے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والی صدف چودھری کے گھر کا ماحول مکمل طور پر بدل گیا ہے اور وہ کچھ دنوں سے ایک الگ ہی دنیا میں آ گئی ہیں۔ روڑکی کی گرین پارک کالونی میں ان کے پیلے رنگ کے گھر کے باہر مسلسل چہل پہل نظر آ رہی ہے۔ شہر کا ہر اہم شخص صدف کو مبارکباد دینے کے لیے پہنچ رہا ہے اور ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر بڑے فخر کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہیں۔ گھر والوں کے فون لگاتار چل رہے ہیں اور کوئی بھی پچھلے تین دنوں سے سو نہیں پا رہا ہے۔ اب تک ہزاروں لوگوں نے صدف کو مبارکباد دی ہے۔
ستائیس سالہ صدف ’سرو یوپی گرامین بینک‘ کی دیوبند شاخ میں ملازمت کرنے والے اسرار احمد اور شہباز بانو کی بڑی بیٹی ہیں اور انہوں نے حالیہ یو پی ایس سی کے سول سروسز امتحان میں ہندوستان بھر میں 23 واں مقام حاصل کیا ہے، صدف مسلم امیدواروں میں سرفہرست رہی ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ اس سال یو پی ایس سی امتحان میں ملک بھر میں ٹاپ کرنے والے شبھم کشواہا کے والد بہار گرامین بینک میں منیجر ہیں، صدف سنیہا دوبے کی طرح فارین سروسز میں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں اور انہیں کافی وقت سے جانتی ہیں۔ صدف نے اپنی ابتدائی تعلیم امروہہ سے حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے انجینئرنگ پنجاب کے جالندھر سے کی۔ صدف کی یہ دوسری کوشش تھی۔
صدف کی آل انڈیا رینک اور او بی سی کوٹہ کے پیش نظر ان کے پاس آئی ایف ایس حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ وہ مغربی اتر پردیش میں کاشتکاری کے لئے مشہور گھاڑا برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جو پسماندہ طبقات میں شمار ہوتی ہے۔ آئی ایف ایس سی کے لئے انتخاب کے سوال پر صدف نے قومی آواز سے کہا ’’ہاں اس کا امکان ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یو پی ایس سی میں میرا سبجیکٹ بین الاقوامی معاملات سے متعلق تھا۔‘‘
صدف نے کہا ’’میں نے سول سروسز کے لئے ملٹی نیشنل کمپنی کی جاب چھوڑ دی اور اس کے بعد 2 سال تک محنت کی۔ ظاہر ہے کہ میں یہاں صرف ملک کی خدمت کے لیے آئی ہوں۔ آج ملک کی بیٹی سنیہا دوبے کی تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ میں بھی مستقبل کی سنیہا دوبے بننا چاہتی ہوں۔ پھر بھی اگر ملک کو لگتا ہے کہ میں آئی اے ایس کے طور پر بہتر کام کر سکتی ہوں تو میں اس کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار ہوں۔‘‘
جس دن یو پی ایس سی امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا اس دن صدف چودھری کے گھر کا ماحول تناؤ بھرا تھا اور والدہ سمیت تمام اہل خانہ دعا کرتے رہے۔ صدف کے چھوٹے بھائی محمد شاد نے بتایا کہ صدف کو گزشتہ سال کے امتحان میں کچھ کم نمبر حاصل ہوئے تھے لہذا اس بار دل تھوڑا بے چین تھا، جبکہ صدف کا کہنا ہے کہ انہیں یقین تو تھا کہ ایسا ہوگا لیکن نتیجہ توقع سے بھی بہتر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدف نے امتحان کے لئے کوئی کوچنگ نہیں لی۔ صدف کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوچنگ نہیں لی لیکن تیاری 20 سال پرانی ہے۔ انہیں پڑھنا بہت پسند ہے۔ بچپن میں وہ اپنے نانا کے گھر سہارنپور جاتی تھیں، ان کے اسکول کی کتابیں جون میں آتی تھیں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ ان سب کا مطالعہ کر لیتی تھیں۔ اب بڑی کلاسوں میں جب انہیں دوبارہ پڑھنا پڑا تو پرانا پڑھا ہوا یاد آ جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لگاتار پڑھائی کرنے سے انہیں فائدہ حاصل ہوا۔
مزید یہ کہ صدف کے پاس یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے کوئی بڑی حکمت عملی نہیں تھی۔ صدف بتاتی ہیں کہ ’’صبح ناشتے کے بعد جب تک دل کرتا تھا میں مطالعہ کرتی تھی۔ ہفتہ وار ایک بار خود کا جائزہ لیتی تھی۔ مگر یہ سچ ہے کہ میں نے جو کچھ بھی کیا خود سے کیا اور بغیر کوچنگ کے کامیابی حاصل کی ہے۔
صدف کے نتائج کا اعلان ہونے کے دوسرے دن ان کے والد اسرار احمد صبح جلدی بینک میں ڈیوٹی کے لئے چلے گئے اور بہن صائمہ چودھری اپنے امتحان کے سلسلہ میں دہلی چلی گئیں۔ صدف کے بھائی سکندر علی نے بتایا ’’میڈیا والوں کو ایک بار پھر یہاں آنا پڑے گا کیونکہ صدف سے چھوٹی بہن صائمہ چودھری بھی بہت باصلاحیت ہے اور وہ یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے کی تیاری بھی کر رہی ہیں اور خود صدف ان کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ صدف کا کہنا ہے ’’یہ حقیقت ہے کہ صائمہ نے ہمیشہ ٹاپ کیا ہے اور وہ مجھ سے زیادہ قابل ہے۔ اللہ اسے بھی کامیاب کرے۔‘‘
صدف نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ انہوں نے اپنی والدہ کا داخلہ کالج میں کرایا تھا۔ صدف بتاتی ہے کہ ’’جب میری امی نے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا تو ان کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد پانچ بچے بھی ہو گئے لیکن میں دیکھتی تھی کہ امی میری کتابیں پڑھتی رہتی ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ امی پڑھنا چاہتی ہیں لیکن اب وہ ایک ماں تھیں، میں نے اس کے لئے انہیں تیار کیا اور جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو امی نے بھی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ میں نے اپنی کیمیکل انجینئرنگ جالندھر سے مکمل کی اور امی نے بی اے مکمل کر لیا۔‘‘
صدف نے کہا کہ بچوں کو فضول کاموں سے بچنا چاہیے اور ضرورت سے زیادہ ہر چیز فضول ہے۔ میرے خیال میں ہمیں خاندان میں مطالعہ کے ماحول کا فائدہ ملا۔ میرے چھوٹے بھائی نے حال ہی میں 96.5 گریڈ حاصل کیا ہے۔ وہ اس سے خوش نہیں ہے اور کہتا ہے کہ امتحان ہونا چاہیے تھا۔ کورونا کی مدت کے دوران اسکولوں کی جانب سے کی جانے والی تشخیص مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ میرے خیال میں مطالعے کو تندہی سے کیا جانا چاہیے اور گھر میں صاف مسابقتی ماحول ہونا چاہیے۔ ہم بھائیوں اور بہنوں کو لگتا ہے کہ ہر ایک کو ایک دوسرے کا بھلا کرنا ہے۔ اس میں ہمارے والدین کا سب سے بڑا کردار ہے کیونکہ انہوں نے ہی ہماری اس طرح کی پرورش کی ہے۔
صدف کے ماموں ندیم پردھان کا کہنا ہے کہ کہانیاں کامیاب ہونے کے بعد بدل جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب کچھ رشتہ دار کہتے تھے کہ بیٹیوں کو پڑھنے کے لئے باہر نہیں بھیجنا چاہیے۔ آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں نے کمال کر دیا! صدف کہتی ہیں کہ آج ان کے معاشرے سے صرف 40 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اگر یہ تعداد بڑھتی ہے تو بڑی سماجی تبدیلی آئے گی۔ ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔