بہار میں سرکردہ یادو لیڈروں کو جمع کر آر جے ڈی سیاست کی ہوا بدلنے میں مصروف
شرد یادو اور دیویندر یادو جے پی تحریک سے نکلے لیڈر ہیں، لیکن دونوں لیڈر الگ رہ کر کچھ کر نہیں پا رہے تھے، ایسے میں آر جے ڈی میں آنے سے دونوں لیڈروں کو ہی ایک مضبوط ٹھکانہ مل گیا ہے۔
بہار میں سبھی پارٹی اپنے کنبے کو بڑھاتے ہوئے اپنے ووٹ بینک کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ اسی ضمن میں بہار کی اہم اپوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) بھی پرانے سرکردہ یادو لیڈروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔
سابق مرکزی وزیر شرد یادو کے بعد آر جے ڈی نے سابق مرکزی وزیر دیویندر پرساد یادو کو اپنے حصے میں کر لیا۔ دیویندر یادو نے اپنے حامیوں کے ساتھ بدھ کو لوہیا جینتی کے موقع پر نہ صرف آر جے ڈی کا دامن تھام لیا، بلکہ اپنی پارٹی سماجوادی جنتا دل ڈیموکریٹک کا انضمام بھی آر جے ڈی میں کر دیا۔ اس سے پہلے شرد یادو بھی اپنی پارٹی لوک تانترک جنتا دل کا انضمام آر جے ڈی میں کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ شرد یادو اور دیویندر پرساد یادو نے کبھی آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کے ساتھ مل کر سیاسی پاری کا آغاز کیا تھا، لیکن بعد میں یہ الگ ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف سیاست بھی کی۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک اور بہار کی موجودہ سیاست نے پھر سے ان سبھی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔
شرد یادو نے آر جے ڈی میں اپنی پارٹی کا انضمام کرتے ہوئے یہ کہہ کر اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ساتھ آنے کے اشارے دیئے تھے کہ یہ انضمام ایک وسیع اتحاد کے لیے پہلا قدم ہے۔ ملک میں جو حالات ہیں، اس میں سارے اپوزیشن کو ایک ہونا چاہیے، اسی وجہ سے ہم نے سب سے پہلے یہ پیش قدمی کی ہے۔ پورے ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو ملا کر لڑنے سے ہی بی جے پی ہار سکتی ہے۔ تنہا کوئی پارٹی نہیں ہرا سکتی۔
دوسری طرف بدھ کو سماجوادی پارٹی جنتا دل ڈیموکریٹک کے آر جے ڈی میں انضمام کے دوران پارٹی کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر دیویندر پرساد یادو نے بھی کہا کہ ملک اور ریاست کے موجودہ حالات میں ابھی دو قطبی سیاست چل پڑی ہے۔ آگے بھی ایسا ہی حال ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ سماجوادی تحریک کند سا پڑ گیا ہے۔ ایسے حالات میں سماجی انصاف اور سیکولرزم والا سب سے بڑا گروپ آر جے ڈی ہے، اس لیے سماجوادی طاقتوں کی متحدہ جدوجہد اس وقت تاریخ کا مطالبہ ہے۔
شرد یادو اور دیویندر یادو جے پی تحریک سے نکلے لیڈر ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ دونوں لیڈر الگ رہ کر کچھ کر نہیں پا رہے تھے، جب کہ آر جے ڈی گزشتہ انتخاب میں لالو پرساد یادو کی غیر موجودگی میں بھی مضبوط ہوئی ہے۔ ایسے میں آر جے ڈی میں آنے سے جہاں ان دونوں لیڈروں کو ایک مضبوط ٹھکانہ مل گیا ہے، وہیں آر جے ڈی بھی قدآور یادو لیڈروں کے آنے سے مزید مضبوط ہوگئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔