مودی حکومت کے 8 سال کی حکمرانی اور گاندھی-پٹیل کا نظریہ... رام پنیانی
گزشتہ 30 مئی کو نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم آٹھ سال پورے کر لیے، اس موقع پر حکومت کے کاموں اور ناکامیوں کے بارے میں کئی دعوے کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ 30 مئی کو نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم آٹھ سال پورے کر لیے۔ اس موقع پر حکومت کی کارگزاریوں اور ناکامیوں کے بارے میں کئی دعوے کیے جا رہے ہیں۔ امت شاہ سے لے کر کئی بی جے پی کے کئی سرکردہ لیڈروں نے حکومت کی گزشتہ آٹھ سالوں کی حصولیابیوں کی تعریف کی۔ کئی لیڈروں نے اُجولا، جن دھن، رہائش وغیرہ منصوبوں کو مثالی قرار دیا۔ اسمرتی ایرانی نے کہا ہے کہ نئی حکومت نے خواتین کو آگے آ کر کام سنبھالنے کے لیے نہ صرف راغب کیا ہے بلکہ انھیں اس کے مواقع بھی دستیاب کروائے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کے مخالفین کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی اور حکومت کے دیگر فیصلوں سے ملک کو بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ کووڈ وبا کے دوران اچانک ملک میں لاک ڈاؤن کر دینے سے لاکھوں لوگوں کو مشکل حالات میں اپنے گھر لوٹنا پڑا۔ وبا سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہمارے طبی سروسز کا کیا حال ہے اور ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے میں ہم اہل نہیں ہیں۔ حکومت کے ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے، کسان بدحال ہیں اور بڑھتی قیمتوں نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ بین الاقوامی بازار میں روپیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
حکومت بھلے ہی یہ دعویٰ کر رہی ہو کہ اس کی حکومت میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوئے لیکن سچائی یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے معاملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی ایک مثال دہلی میں 2020 میں ہوئے فسادات ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دونوں اہم مذہبی طبقات کے یکسر رشتوں میں تلخیاں گھل گئی ہیں۔ اتر پردیش میں سنہ 2014 میں فرقہ وارانہ تشدد کے 133 واقعات ہوئے۔ سنہ 2017 میں ان کی تعداد 195 ہو گئی، جو کہ 2014 کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ تھی۔ ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق سنہ 2015 میں مذہبی بنیاد پر سماجی لڑائی کے معاملوں کی تعداد کے نظریہ سے ہندوستان، سیریا، نائیجیریا اور عراق کے بعد چوتھے مقام پر تھا۔ یہی حالات آگے کے سالوں میں بھی بنے رہے۔
’دوسروں سے نفرت کرو‘ نیو نارمل بن گیا ہے۔ حکومت ایودھیا میں رام مندر اور کاشی میں کوریڈور کی تعمیر کو اپنی حصولیابی بتا رہی ہے۔ حکومت کا شاید یہ بھی ماننا ہے کہ متھرا، تاج محل، جامع مسجد اور بابا بدھن گیری (کرناٹک) جیسے مسائل کا مباحثے میں شامل ہونا بھی اس کی کامیابی ہے۔ عالمی سطح پر مختلف انڈیکس میں ہندوستان کی حالت میں گراوٹ آئی ہے۔ پھر چاہے انڈیکس جمہوریت سے متعلق ہو، مذہبی آزادی یا پریس کی آزادی سے، یا بھوک یا لطف یعنی خوشی کے تعلق سے۔ مودی کے اس دعوے کو سخت چیلنج دیا جا سکتا ہے کہ وہ گاندھی اور سردار پٹیل کے خوابوں کا ہندوستان تیار کر رہے ہیں۔
سردار پٹیل گاندھی کے بڑے مرید تھے اور انھوں نے ایک بار نہرو سے کہا تھا کہ ہم دونوں نے اپنے استاد مہاتما گاندھی کے قدموں میں بیٹھ کر سیاست سیکھی ہے۔ گاندھی جی کا ایک اصول یہ تھا کہ پالیسیاں بناتے وقت یا فیصلے لیتے وقت حکمرانوں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ جو وہ کرنے جا رہے ہیں کیا اس سے آخری صف کے آخری آدمی کی حالت بہتر ہوگی۔ ان دنوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلی صف میں سب سے آگے کھڑا آدمی اور امیر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے قومی وسائل اس پر قربان کر دیئے ہیں۔ جہاں تک آخری صف کے شخص کا سوال ہے، اس کی طرف دیکھنے تک کی کسی کو فرصت نہیں ہے۔
ملک میں ہر طرح کی آزادی کا زوال ہوا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی ان میں سے ایک ہے۔ جہاں کئی پرعزم کارکنان اور دانشوروں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے وہیں نفرت بھری باتیں اگلنے والے (مثلاً یتی نرسنہانند، سریش چوہانکے وغیرہ) کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ انھیں یہ پتہ ہے کہ چاہے وہ کسی کے قتل کی بات کریں یا کسی طبقہ کے قتل عام کی اپیل کریں، ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حالات ایسے بنا دیئے گئے ہیں کہ جو طبقہ متاثر ہے اسے ہی قصوروار بتایا جا رہا ہے۔
گاندھی جی نے زندگی بھر ہندو-مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تو یہ ان کی فکر کا سب سے بڑا موضوع تھا۔ چاہے کانگریس کو خلافت تحریک سے جوڑنا ہو یا فرقہ وارانہ کشیدگی میں جل رہی دہلی یا نواکھالی کی یاترا ہو، وہ ہندوستان کو اس کی تنوع اور کثرت کے ساتھ ایک مضبوط ملک بنانے کے تئیں پرعزم تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کو قائم کرنا ان کے ابتدائی اہداف میں سے ایک تھا۔ دہلی میں ان کی تامرگ بھوک ہڑتال کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی۔
گاندھی جو چاہتے تھے اس کے ٹھیک برعکس دونوں طبقات کے درمیان دوری کو مزید بڑھانے اور گہرا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ رام مندر تحریک کے ساتھ شروع ہوئے اس عمل نے گزشتہ آٹھ سالوں میں مزید رفتار پکڑ لی ہے۔ گاندھی جی دونوں طبقات کے فرقہ وارانہ عناصر کو ڈانٹنے میں احتیاط نہیں کرتے تھے۔ وہ امن، خیر سگالی اور عدم تشدد کے تئیں پوری طرح پرعزم تھے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ گاندھی جی کے خوابوں اور ان کی خواہش کے ٹھیک برعکس ہے۔ آج مذہب کا سیاست کے ساتھ گھال میل کیا جا رہا ہے جب کہ گاندھی جی ان دونوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ رکھنے کے حامی تھے۔ انھوں نے لکھا تھا ’’جس ہندوستان کو بنانے کے لیے میں نے زندگی بھر کام کیا ہے، اس میں ہر شخص کا درجہ برابر ہوگا، پھر چاہے اس کا مذہب کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ جہاں تک ریاست (ملک) کا سوال ہے، اسے جمہوری ہونا ہی ہوگا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی لکھا ’’مذہب قومیت کی کسوٹی نہیں ہے۔ وہ تو انسان اور اس کے ایشور کے درمیان کا نجی معاملہ ہے۔‘‘ اور ’’مذہب ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے اور سارے سیاست یا قومی مسائل سے نہیں ملایا جانا چاہیے۔‘‘ (ہریجن، 31 اگست 1947)
جہاں تک سردار پٹیل، جن کا نام مودی جی بار بار لیتے رہتے ہیں، کا سوال ہے، وہ سماج میں بڑھتے تشدد سے بہت فکرمند تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ 5 فروری 1948 کے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مدراس ایڈیشن میں شائع رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’آر ایس ایس پورے ملک میں غیر قانونی قرار؛ تشدد اور نفرت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے قدم‘‘۔ سردار پٹیل نے لکھا ’’ان کی سبھی تقریریں فرقہ واریت کے زہر سے بجھی ہوئی تھیں... اس زہر کے آخری نتیجے بطور ملک کو گاندھی جی کی قربانی دیکھنی پڑی۔‘‘
ان دنوں نفرت کو ہر طرح سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ نفرت پھیلانے والی گینگ کے مکھیا خود مودی ہیں۔ ’’اگر اورنگ زیب تھا تو شیواجی بھی ابھرے‘‘ جیسی باتیں وہ وقت وقت پر کہتے رہتے ہیں۔ ان کے بھکت، مرید اور حامی انہی باتوں کو بڑھا چڑھا کر دھرم سنسدوں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلاتے ہیں۔ انھیں کسی کا خوف یا لحاظ نہیں ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں ہریدوار میں منعقد سہ روزہ دھرم سنسد اس کی مثال ہے۔ اس تقریب میں اہم بی جے پی لیڈروں کی موجودگی میں کھلے عام قتل عام کی اپیل کی گئی۔ مودی نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لی۔ ملک میں مسلمان خود کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف اس طبقہ کے فرقہ وارانہ عناصر کو فروغ مل رہا ہے وہیں بیشتر مسلمان ڈر کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔ جینوسائیڈ واچ کے سربراہ گریگری اسٹینٹن کا کہنا ہے کہ قتل عام کے اندیشہ کے 1 سے 10 کے پیمانے پر ہندوستان اس وقت 8 پر ہے۔ اس منظرنامہ میں گاندھی اور نہرو کیا کرتے؟ صرف ان کا نام لیتے رہنے سے سچائی بدل نہیں جائے گی۔
(انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔