اردو اداروں کو تباہ کرنے میں کیجریوال حکومت مرکز سے پیچھے نہیں
اردو اکادمی دہلی کے تناظر میں یہ بولنا درست ہوگا کہ مودی حکومت اور ریاستی کیجریوال سرکار کے مابین مقابلہ آرائی چل رہی ہے کہ اردو اور مسلمانوں کو زیادہ نقصانات اور اذیتیں کون پہنچا سکتا ہے۔
اقلیتوں کے تعلیمی و ادبی اداروں کو اور دیگرسماجی و فلاحی اداروں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مستقل کوششیں جاری ہیں اور یہ سب کچھ اقلیتوں اور اردو والوں کی بے حسی کا ہی ثمرہ ہے کہ آج زبان و ادب، تہذیب وثقافت کی بنا پر مرکزیت رکھنے والی دہلی کے تمام اداروں میں علم و دانش سے نابلد افراد برسراقتدار ہیں۔
یہ باتیں اردو اکادمی دہلی کی نئی گورننگ کونسل کی تشکیلِ نو کے حوالے سے کی جا رہی ہیں کیوں کہ دہلی ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا میں اردو اکادمی دہلی موضوع بحث بنی ہوئی ہے، اس کی واحد وجہ گورننگ باڈی کے اراکین اور اس کے نومنتخب نائب چیئرمین ہیں۔ نائب چئیرمین کا تعلق کسی تعلیمی و ادبی ادارے سے نہیں بلکہ وہ عام آدمی پارٹی کے بس ایک رکن اور مصطفیٰ آباد حلقۂ اسمبلی نہرو وہار وارڈ کے کونسلر رہ چکے ہیں، جنہیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی تجربے کے ذریعہ اردو زبان و ادب کی ترویج واشاعت میں اہم کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے قیام 31 مارچ 1981 کے بعد عام آدمی پارٹی کی حکومت میں اردو اکادمی کے معیار، اغراض ومقاصد کو خوب پامال کیا جا رہا ہے، جب سے اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی برسراقتدار آئی ہے اردو اکادمی کا استعمال محض ایک سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کیا جا رہا ہے اور انتخابات آتے ہی جنگی پیمانے پر مشاعرے کرائے جاتے ہیں، لیکن یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اردو کی ترویج واشاعت کی جانب ہمارے وزیر اعلی اور نائب وزیر اعلیٰ کی توجہ نہیں جاتی، دہلی کے اسکولوں سے مستقل اردو ختم کی جا رہی ہے اور اردو میڈیم اسکولوں کو ضم کرکے ان کے وجودہ کو دفن کیا جا رہا ہے۔
اردو اکادمی میں گزشتہ کئی برسوں سے ریٹائرمنٹ کا سلسلہ جاری ہے، کئی لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن اس خلا کو پر کرنے کے لیے اب تک نئی تقرریوں کی جانب توجہ مرکوز نہیں کی گئی، اس طریقے سے اردو اکادمی کے متعدد بنیادی مسائل برقرار ہیں۔ مگر مشاعرے، افطار پارٹی اور وراثت میلے کے ذریعہ اردو کے فنڈ کو خرچ کرکے عام آدمی پارٹی کی روح کو تقویت بخشنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو اکادمی پر پروفیسر حضرات کی اجارہ داری ہے؟ بالکل نہیں اردو کی ترویج و اشاعت میں اردو جاننے والا ایک عام آدمی بھی کار ہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ تاج محمد کی قیادت میں اردو اکادمی دہلی حسب روایت سیاسی تشہیر کا حصہ بنی رہتی ہے یا گزشتہ برسوں میں تقریباً 22 افراد کے ریٹائرمنٹ کے خلا کو پر کرکے، دہلی کے اسکولوں میں اردو کے نفاذ کو یقینی بناتے ہوئے دہلی اردو اکادمی کے تشخص کو بحال کیا جاتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو تاج محمد ہی اردو اکادمی کے نائب چیئرمین شپ کے حقدار ہیں ورنہ انہیں بذات خود اس عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اگر ہم مکمل گورننگ باڈی پر نظر ڈالیں تو وہ اس طرح ہے: محمد مستقیم خاں، عبدالماجد نظامی، جاوید رحمانی، جاوید خاں، رفعت علی زیدی، منّے خاں، عظیم اللہ شمسی، سلیم صدیقی، رخسانہ خان، سلیم چودھری، شبانہ بانو، محمد شکیل، عین الحق، محمد ضیاء اللہ، محمود خان، رخشی حسن، نکہت پروین، وسیم الزماں، اسرار قریشی، محمد شاداب، شیخ فاروق زماں (جاوید) اور محمد نفیس منصوری شامل ہیں۔
اردو اکادمی دہلی کے تعلق سے اردو کی دانش گاہوں اور اردو اکادمی سے وابستہ رہی شخصیات سے بھی گفتگو کی گئی۔ دہلی اردو اکادمی کے سابق سیکریٹری عظیم اختر نے کہا کہ اکادمی کے قیام سے لیکر تاحال وائس چیئرمین اور ممبران کافی پڑھے لکھے لوگ رہے ہیں لیکن اردو کو جائز مقام نہیں مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ قد آور اردو والوں کا ہونا اہم نہیں ہے بلکہ اردو لکھنے پڑھنے اور اس سے دلچسپی رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اب تک اردو کو اسکولوں میں یقینی بنائے جانے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیے گئے، صرف مشاعروں اور سمیناروں پر پورا فنڈ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ تین نکاتی لینگویج فارمولے کے امیٹمنٹ پر کام ہونا چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو سے کسی کو دلچسپی نہیں بس ذاتی مفادات پوشیدہ ہیں۔
اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے اپنے منفرد انداز میں کہا کہ سیاسی جماعتوں سے توقع رکھنا کہ وہ زبان و ادب کی نمایاں خدمات انجام دیں گی لاحاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں ہی کو مختلف جگہوں پر لائیں گی۔ میرے خیال میں انہیں ایک سال آزمانہ چاہیے اس کے بعد حکومت سے جاکر باتیں کرنی چاہیے۔ کیا گزشتہ لوگوں کے وقت میں اعتراضات نہیں کیے گیے تھے، میرے وقت میں بھی لوگوں نے باضابطہ استعفی دیا تھا۔
ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ اردو اداروں میں اردو والوں کا ہونا ضروری ہے۔ جو اردو کی ترویج و اشاعت کریں، لیکن کہا جارہا ہے کہ نومنتخب گورننگ باڈی میں کوئی بھی اردو والا نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی کوشش کی گئی ہے جو انتخابات کے مدنظر ہے۔ ضرورت ہے کہ گورننگ باڈی دوبارا تشکیل دی جائے یا پھر اردو والے بڑھائے جائیں تاکہ بہتر رہنمائی ممکن ہوسکے۔
اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ میں ان میں بیشتر لوگوں کو نہیں جانتا، البتہ نو منتخب وائس چیئرمین کا وائرل ویڈیو دیکھا، ان کے تلفظ کو سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ اردو ادارے کا سربراہ کسی اردو والے کو ہی ہونا چاہیے۔
پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ اردو اکادمی گورننگ باڈٰی کی تشکیل اور وائس چیئرمین کی نامزدگی کے سلسلے میں دہلی ہی نہیں پوری اردو دنیا کو مایوسی ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس میں اہل اردو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اور دہلی کی جامعات کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین ماجد دیوبندی نے کہا کہ دہلی اردو اکادمی صرف ایک اردو کا ادارہ نہیں بلکہ دہلی والوں کی تہذیب اور ثقافتی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، پورے ہندوستان کی اکادمیوں سے زیادہ کام دہلی اردو اکادمی نے کیا ہے۔ جب میں نائب چئیرمین تھا تب کافی کام ہوئے لیکن وقت کم ملنے کی وجہ سے اردو کے لیےجو کرنا چاہتا تھا وہ نہیں کرسکا۔ حکومت کسی بھی سیاسی شخص کو وائس چیئرمین یا رکن بناسکتی ہے لیکن اس کا اردو جاننا ضروری ہے، جو اردو اکادمی کے آئین میں بھی لکھا ہے۔ کاش اردو اکادمی کو اردو جاننے والے اہل حضرات نصیب ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Feb 2021, 2:46 PM