نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف 'آل انڈیا سیو ایجوکیشن کمیٹی' کا احتجاج
آل انڈیا سیو ایجوکیشن کمیٹی کے اراکین کو یہ بھی شدّت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے کہ اس پالیسی کی دفعات پر عمل درآمد کے بعد پورا نظام تعلیم سرمایہ دار طبقے کے قبضہ میں آجائے گا۔
مرادآباد: حکومت کی جانب سے جاری نئی تعلیمی پالیسی کو لے کر ملک بھر میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی عوام کے حق میں نہیں ہوگی۔ اردو حلقوں میں بھی اس نئی تعلیمی پالیسی کو لے کر تشویش ہے کہ اردو زبان جو پہلے ہی تعصب کا شکار ہے اس کو اِس نئی پالیسی سے اور بڑا نقصان ہوگا۔ اترانچل میں اردو زبان کو پہلے ہی حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے، وہاں اب اردو دوسری سرکاری زیان نہیں، بلکہ سنسکرت کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کو لے کر سماجی، تعلیمی، سیاسی حلقوں میں لگاتار یہ بات اُٹھ رہی ہے کہ مرکزی ایوان میں بحث کرائے بغیر اسے پاس نہ کیا جائے۔
اکھل بھارتیہ تعلیم بچاؤ سمیتی (آل انڈیا سیو ایجوکیشن کمیٹی) کی مرادآباد یونٹ نے نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف ایک احتجاج بلند کیا ہے جس میں تمام ہی مذاہب کے افراد نے حصہ لیا، ان سبھی کا کہنا ہے کہ اس نئی تعلیمی پالیسی سے ملک کے نونہالوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ کمیٹی کا ماننا ہے کہ اس نئی تعلیمی پالیسی-2020 میں بہت سی ایسی شقیں ہیں جو تعلیم مخالف اور عوام دشمن ہیں۔ لہذا عام لوگوں اور تعلیم سے محبت کرنے والوں کے ذریعہ اس پالیسی کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
حکومت نے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب پورا ہندوستان ایک خطرناک وبائی مرض سے جوجھ رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، ایسے میں حکومت کی جو پہلی فکر ہونی چاہیے تھی اسے نظر انداز کر کے مر کزی کابینہ نے آناً فاناً میں نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی جب کہ سول سوسائٹی اور اہلِ علم نے پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان کھڑے کیے تھے اور اسے ایک مخصوص نظریہ کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔
ایک ہفتہ تک چلے اس آن لائن احتجاجی مظاہرہ میں سمیتی سے جڑے اراکین نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ پالیسی کو غیر جمہوری انداز میں نافذ کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے اراکین کو یہ بھی شدّت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے کہ اس پالیسی کی دفعات پر عمل درآمد کرنے کے بعد پورا نظام تعلیم سرمایہ دار طبقے کے قبضہ میں آجائے گا، جس سے تعلیم انتہائی مہنگی ہوگی اور عام غریبوں سے دور ہوجائے گی۔ اراکین کا کہنا ہے کہ اس نئی تعلیمی پالیسی میں ہندوستان کے بہت سے عظیم الشان رہنما جیسے ایشور چند ودیاساگر، راجارام موہن رائے، جیوتی با پھلے جیسے عظیم اشخاص کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے، جن کی جدو جہد سے ملک میں ایک نیا تعلیمی انقلاب آگیا تھا۔
اس نئی تعلیمی پالیسی کو حکومت ہندوستانی ثقافت اور عالمی گرو بننے کے نام پر تھوپنا چاہتی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ غیر ملکی یو نیورسٹیوں کی پابند بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔ ان سبھی اراکین کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں بیرونی ممالک کی یونیورسٹیاں منافع کمانے آئیں گی، پڑھانے نہیں۔ اس پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہو جائےگی، امیروں کے لئے الگ اور غریبوں کے لئے الگ۔ جو جمہوریت کے بنیادی تصور کے منافی ہے۔ ان اراکین نے اس نئی پالیسی کی بہت سی دوسری شقوں پر بھی اعتراض کیا ہے، جیسے 10 + 2 کی بجائے 5 + 3 + 3 + 2 کا نظام۔ آنگن واڑی سے پری پرائمری تعلیم حاصل کرنا، سرکاری تعلیمی نظام کو کمزور کرتے ہوئے خاتمے کی طرف لے جانا۔
اکھل بھارتیہ تعلیم بچاوؤ سمیتی کا ماننا ہے کہ مجموعی طور پر یہ نئی تعلیمی پالیسی -2020 جمہوری تعلیمی نظام کے تصور کے منافی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت میں سائنسی، سیکولرازم، آزاد اور آفاقی تعلیم کو برقرار رکھے۔ کمیٹی نے امید کی ہے کہ حکومت اس نئی تعلیمی پالیسی -2020 کو منسوخ کر کے اور تعلیم کی جمہوری نوعیت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔
اس موقع پرایس پی ایس راجپوت، سریش پال سنگھ، اویناش سکسینہ، ڈاکٹر نریندر سنگھ، راجیش نندا وغیرہ نے مراد آباد میں انسداد احتجاج ہفتہ بنانے میں سرگرم کردار ادا کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔