ایودھیا: مسجد تعمیر شروع ہونے سے پہلے ہی ٹرسٹ تنازعہ کا شکار، سپریم کورٹ میں عرضی داخل
ایودھیا معاملہ میں ہندو فریق کی پیروی کرنے والے دو وکلاء نے عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کر کہا ہے کہ امن و امان بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسجد تعمیر کے لیے تشکیل ٹرسٹ میں سرکاری نمائندہ شامل ہو۔
بابری مسجد کا متبادل مسجد دھنّی پور میں بنانے کے لیے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، لیکن تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے ہی اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کے ذریعہ تشکیل ٹرسٹ 'انڈو-اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن' (آئی آئی سی ایف) تنازعہ کا شکار ہو گیا ہے۔ دراصل اس ٹرسٹ کو مسجد تعمیر کے ساتھ ساتھ ایودھیا کی متنازعہ زمین کے بدلے حاصل 5 ایکڑ اراضی میں بننے والے اسپتال اور کمیونٹی سنٹر بنانے کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔ اب کچھ وکلاء نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کہا ہے کہ اس ٹرسٹ میں سرکاری نمائندہ بھی شامل ہونا چاہیے۔
عرضی وکیل شِشر چترویدی اور کرونیش شکلا کے ذریعہ داخل کی گئی ہے جو کہ ایودھیا معاملہ میں ہندو فریق کی پیروی کر رہے تھے۔ انھوں نے داخل عرضی میں کہا ہے کہ ایودھیا میں امن و امان اور خیرسگالی بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسجد تعمیر کے لیے تشکیل ٹرسٹ میں سرکاری نمائندہ شامل ہو۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو پی حکومت نے عدالت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ایودھیا ضلع واقع دھنّی پور گاؤں میں سنی وقف بورڈ کو 5 ایکڑ زمین دے دی۔ 29 جون کو وقف بورڈ نے زمین پر مسجد اور عوامی سہولیات کی کچھ دیگر چیزیں بنانے کا انتظام دیکھنے کے لیے آئی آئی سی ایف نامی ٹرسٹ کا اعلان بھی کر دیا، لیکن اس 15 رکنی ٹرسٹ میں کوئی بھی سرکاری نمائندہ شامل نہیں جس پر غور کیا جانا چاہیے۔
عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ مسجد تعمیر کے لیے ملک سے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی چندہ آ رہا ہے۔ جب وہاں مسجد، ہاسپیٹل، لائبریری، کمیونٹی سنٹر وغیرہ تعمیر ہو جائے گا تب وہاں ہزاروں لوگ آئیں گے اور ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ٹرسٹ کے کام اور وہاں آنے والے لوگوں پر حکومت کی بھی نظر رہے۔ اس کے لیے ٹرسٹ میں کچھ سرکاری نمائندوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ چونکہ ٹرسٹ کا بنیادی کام مسجد تعمیر اور اس کا انتظام دیکھنا ہے، اس لیے عرضی دہندگان نے مشورہ دیا ہے کہ سرکاری نمائندے مسلم طبقہ سے ہی رکھے جائیں۔
عرضی میں عدالت سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو مسجد تعمیر کے لیے ایک ایسے ٹرسٹ کی تشکیل سے متعلق ہدایت دے جس میں کچھ سرکاری نمائندے بھی شامل ہوں، اور اس سلسلے میں رام مندر تعمیر کے لیے تشکیل ٹرسٹ 'شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر' کا حوالہ دیا گیا ہے۔ عرضی میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا میں متنازعہ پوری زمین ہندو فریق کو دیتے ہوئے حکومت کو مندر تعمیر اور انتظام دیکھنے کے لیے جو ٹرسٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا، اس میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے نمائندوں کو شامل کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے سنی وقف بورڈ کو بھی ایودھیا میں 5 ایکڑ زمین دینے کے لیے کہا تھا جو اسے مل بھی گئی ہے، لیکن مسجد وغیرہ تعمیر اور اس کی دیکھ ریکھ میں سرکار کا کوئی کردار طے نہیں کیا گیا، لیکن اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
ایودھیا معاملے میں ہندو فریق کے وکیل رہے دونوں عرضی دہندگان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے 29 نومبر کو تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ایودھیا کے مذہبی اور ثقافتی اہمیت کو پہچانا تھا، یہ کہا تھا کہ وہاں مستقل طور پر امن قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ عدالت کے اسی جذبہ کے مطابق مسجد کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ میں بھی حکومت کے نمائندوں کو رکھا جانا لازمی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ یہ عرضی سپریم کورٹ میں داخل تو کر دی گئی ہے، لیکن اس پر سماعت کے لیے فی الحال کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Aug 2020, 4:40 PM