منی پور مسئلہ پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس منعقد، کانگریس اور ٹی ایم سی کا واک آؤٹ
پارٹی رہنماؤں کے مطابق، دگوجے سنگھ، بھٹاچاریہ اور اوبرائن منی پور کی صورت حال پر بات چیت کے خواہاں تھے، جہاں 3 مئی کو تشدد شروع ہونے کے بعد سے 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
نئی دہلی: کانگریس قائدین دگوجے سنگھ اور پردیپ بھٹاچاریہ اور ترنمول کانگریس کے لیڈر ڈیرک اوبرائن نے جمعرات کو منی پور تشدد کے معاملے پر بحث کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کی میٹنگ سے واک آؤٹ کیا۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق، دگوجے سنگھ، بھٹاچاریہ اور اوبرائن منی پور کی صورت حال پر بات چیت کے خواہاں تھے، جہاں 3 مئی کو تشدد شروع ہونے کے بعد سے 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن دگوجے سنگھ نے 21 جون کو امور داخلہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین برج لال کو ایک خط لکھ کر منی پور تشدد پر بحث کی درخواست کی تھی۔
کمیٹی کے چیئرمین کو لکھے اپنے خط میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے 6 جولائی کی میٹنگ میں منی پور میں ہوئے تشدد پر تفصیلی بحث کرنے کی مانگ کی تھی۔ دگوجے سنگھ نے لکھا کہ جیلوں کی حالت و دیگر مسائل تبادلہ خیال کرنے کے لیے مختلف ریاستوں سے تجاویز سننے کے لیے 6، 19 اور 27 جولائی کو کمیٹی کی میٹنگ بلائی گئی ہے۔
50 دن پہلے شروع ہونے والے منی پور تشدد میں 100 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 50000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایسے میں جیلوں کی حالت کے بجائے منی پور تشدد پر بات ہونی چاہیے۔
اپنے خط میں کانگریس کے سینئر لیڈر نے کہا تھا، "مجھے یہ جان کر بھی دکھ ہوا ہے کہ شمال مشرقی ریاست میں تشدد کے دوران اپنے خاندانوں سے الگ ہونے والی ماؤں کے ذریعہ ریلیف کیمپوں میں 40 بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔‘‘ خط میں کہا گیا ہے کہ منی پور میں اسکول بند ہیں اور لوگ اپنے بچوں کو میزورم کے اسکولوں میں داخل کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ منی پور میں اے ٹی ایم میں نقدی ختم ہو گئی ہے اور لوگوں کو انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے ادائیگی کرنے میں پریشانی کا سامنا ہے۔ سنگھ نے اپنے خط میں درخواست کی "اس طرح، میں آپ سے گزارش کروں گا کہ جیلوں کے حالات کے بجائے منی پور کے تشدد پر تفصیلی بات چیت کریں۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔