بے ترتیب بارش کے سبب دھان کی بوائی متاثر
موسمیات کا خیال ہے کہ جولائی کے باقی دنوں میں بے ترتیب بارشوں میں کمی واقع ہوگی اور توقع ہے کہ صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
مانسون کی آمد کے ساتھ ہی ملک کی کئی ریاستوں میں جہاں پانی جمع ہونے اور لگاتار بارش کی وجہ سے قصبے اور شہر تالاب بن گئے ہیں وہاں معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی ہے۔ گجرات اور آسام میں حالات کافی خراب نظر آرہے ہیں۔ ساتھ ہی زرعی شعبے پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا ہے اور آنے والے دنوں میں معیشت پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ ایک موٹے اندازے کے مطابق خریف کی فصلوں بالخصوص دھان کی بوائی بے ترتیب بارشوں کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے بوائی میں تقریباً 24 فیصد کمی آئی ہے۔ یعنی گزشتہ سال جولائی کے اس مہینے میں فی ایکڑ زمین پر دھان کی بوائی کی گئی مقدار میں اس سال اب تک تقریباً 24 فیصد کی کمی آئی ہے۔
ماہرین موسمیات اور زرعی ماہرین کے مطابق مانسون کی رفتار میں تیزی کے باوجود اس سال خریف کی فصل کی بوائی بہت کم رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ کئی ریاستوں میں سیلاب جیسی صورتحال کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ماہرین موسمیات کا خیال ہے کہ جولائی کے باقی دنوں میں (جولائی خریف کی فصلوں کی بوائی کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے) بے ترتیب بارشوں میں کمی واقع ہوگی اور توقع ہے کہ صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ 8 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے تک، دھان کی بوائی میں 24 فیصد کمی، خریف کی اہم فصل، خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون سے ستمبر تک آنے والے مانسون کے دوران ملک کے کل بونے والے رقبہ کا تقریباً 60 فیصد حصہ فصلوں کے لیے وافر پانی حاصل کرتا ہے لیکن اس بار یہ معمول سے تقریباً 2 فیصد کم ہے۔ اس کے ساتھ ہی جون کے مہینے میں 8 فیصد کم بارش ہوئی ہے۔
بتا دیں کہ مانسون کی فصلوں کی وجہ سے مہنگائی کنٹرول میں رہتی ہے اور لوگ دیہی علاقوں میں خرچ کرتے ہیں، اور اس سے معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر یکم جون سے 11 جولائی کے درمیان ملک میں تقریباً 7 فیصد بارش ہوئی، تاہم ملک کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں 6 اور 3 فیصد بارشوں کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین موسمیات کے مطابق وسطی ہندوستان میں بارش 10 فیصد زیادہ اور جنوبی ریاستوں میں 27 فیصد زیادہ ہوئی۔ ملک میں خریف کی زیادہ تر فصلیں جولائی اور اگست کے شروع میں بوئی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ خریف کی فصلیں ملک کی سالانہ خوراک کی فراہمی کا تقریباً 50 فیصد حصہ دیتی ہیں۔ حالانکہ ابھی جولائی کا نصف مہینہ باقی ہے اور اس دوران بوائی کا امکان ہے لیکن چھتیس گڑھ، اڈیشہ، مغربی بنگال، اتر پردیش، پنجاب اور ہریانہ جو ملک کو تقریباً دو تہائی چاول فراہم کرتے ہیں ان میں ضرورت کے حساب سے بارشں نہیں ہوئی ہے جس کا اثر نظر آ رہا ہے۔
ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے، بھارتیہ کرشی شودھ پریشد کے سابق سائنسدان دھرم پال نے کہا کہ مشرقی ریاستوں میں بارش کی کمی کی وجہ سے تقریباً پندرہ دن ضائع ہو چکے ہیں۔ انہیں اب باقی وقت میں تیزی سے بوئی کرنی پڑے گی یا بعد میں بونے والی فصلوں کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ دھان کے علاوہ تیل کے بیجوں کی بوائی بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں اب تک 20 فیصد کم رہی ہے۔ ملک کو پہلے ہی تیل کے بیجوں کی کمی کا سامنا ہے اور ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے اسے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دالوں کی بوائی وقت کے حساب سے معمول پر رہی ہے۔
جولائی میں ہونے والی بارش دھان کی بوائی کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، مغربی بنگال کے 19 میں سے 15 اضلاع میں یکم جون سے 8 جولائی کے درمیان اوسط سے کم بارش ہوئی ہے۔ دوسری طرف، اوڈیشہ کے 30 میں سے 16 اضلاع میں مانسون کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جھارکھنڈ میں 24 میں سے 23 اضلاع میں معمول سے کم بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ بہار کے 38 میں سے 30 اضلاع اور اتر پردیش کے 75 میں سے 71 اضلاع میں کم بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ واضح رہے اتر پردیش میں سب سے کم بارش ہوئی ہے، اتر پردیش کو سب سے زیادہ دھان پیدا کرنے والی ریاست سمجھا جاتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔