اب کرناٹک میں ٹیپو سلطان کی تعمیر کردہ مسجد پر ہندوتوا تنظیموں کی بری نظر!

کرناٹک کے سابق وزیر ایس ایشورپا کا کہنا ہے کہ ’’اب سبھی مندر واپس حاصل کیے جائیں گے اور کسی کو بغیر تکلیف یا پریشانی دیے یہ یقینی بنایا جائے گا۔‘‘

تصویر ٹوئٹر
تصویر ٹوئٹر
user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش میں گیان واپی مسجد تنازعہ کو لے کر سروے کا عمل انجام پا چکا ہے اور عدالت میں یہ معاملہ زیر غور ہے، لیکن اس طرح کے تنازعات ملک میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ تازہ معاملہ بنگلورو سے 120 کلومیٹر دور شری رنگا پٹن میں موجود ایک جامع مسجد کا سامنے آیا ہے جس پر ہندوؤں نے دعویٰ کر دیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ کرناٹک کی اس مسجد کو ٹیپو سلطان نے بنوایا تھا۔ اس مسجد کے تعلق سے کچھ ہندو تنظیموں کا ماننا ہے کہ ٹیپو سلطان نے مندر توڑ کر اس مسجد کی تعمیر کی۔ یہی وجہ ہے کہ ’نریندر مودی وِچار منچ‘ نے اس مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ منچ کے ریاستی سکریٹری سی ٹی منجوناتھ نے زور دے کر کہا ہے کہ ٹیپو سلطان کے جو دستاویزی ثبوت موجود ہیں، وہ اس بات کو سچ ثابت کرتے ہیں کہ وہاں پر ایک ہنومان مندر ہوا کرتا تھا۔ دعویٰ تو یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس مسجد کی دیواروں پر سنسکرت تحریریں ملی ہیں جو ان کی مندر والی تھیوری کو طاقت دیتی ہیں۔


انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیر ایس ایشورپا کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اب مسلم بھی یہ بات مان چکے ہیں کہ وہاں پر مسجد کی جگہ اصل میں ایک مندر تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مغلوں نے 36000 مندروں کو توڑ دیا تھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اب سبھی مندر واپس حاصل کیے جائیں گے اور کسی کو بغیر تکلیف یا پریشانی دیے یہ یقینی بنایا جائے گا۔

ہندو تنظیموں کے ذریعہ دعویٰ پیش کیے جانے کے بعد جامع مسجد کے افسران پریشان ہو گئے ہیں۔ ان کی طرف سے اب مسجد کی سیکورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ابھی تک کرناٹک حکومت یا کسی دوسرے بڑے ادارہ نے اس سلسلے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ شری رنگا پٹن مانڈیا ضلع میں پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر ووکالیگا طبقہ کا اثر و رسوخ رہتا ہے۔ سیاسی ماہرین تو اس علاقے کو کرناٹک کا ایودھیا مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی بھی اس علاقے میں اپنی توسیع کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ وقت میں جنتا دل (سیکولر) کا اس جگہ پر دبدبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔