’سبھی تبدیلیٔ مذہب غیر قانونی نہیں‘، سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش حکومت کو دیا جھٹکا، ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگانے سے انکار

جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار نے کہا کہ سبھی تبدیلیٔ مذہب کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا ہے، عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومت کی عرضی پر نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت 7 فروری کو مقرر کیا۔

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے منگل کے روز مدھیہ پردیش حکومت کو انسداد مذہب تبدیلی قانون کو لے کر شدید جھٹکا دیا ہے۔ حکومت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس حکم پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے جس میں ضلع مجسٹریٹ کو مطلع کیے بغیر شادی کرنے والے دو الگ الگ مذاہب کے جوڑے پر مقدمہ چلانے سے روک لگائی گئی تھی۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں نوٹس جاری کیا ہے۔

جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار نے سماعت کے دوران کہا کہ سبھی تبدیلیٔ مذہب کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومت کی عرضی پر نوٹس جاری کیا اور معاملے کی سماعت آئندہ 7 فروری کو مقرر کر دی۔ ریاستی حکومت کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اگر غیر قانونی مذہب تبدیلی کے لیے شادی کا استعمال کیا جاتا ہے تو وہ آنکھ نہیں موند سکتی ہے اور کہا کہ شادی یا مذہب تبدیلی پر کوئی روک نہیں ہے، لیکن اس کے لیے صرف ضلع مجسٹریٹ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔


تشار مہتا نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگانے کا مطالبہ کیا، حالانکہ عدالت عظمیٰ نے کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ ریاستی حکومت نے اپنی دلیل میں کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم نے دفعہ 10(1) کو مدھیہ پردیش مذہبی آزادی ایکٹ 2021 کی دفعہ 10(2) کے ساتھ ملا دیا ہے۔ اس میں آگے کہا گیا کہ جو التزام مذہب تبدیلی کے خواہش مند شہری پر نافذ ہوتا ہے، وہ دفعہ 10(1) ہے اور اس التزام کی خلاف ورزی کے لیے کوئی سزا نہیں ہے اور کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاتا ہے۔

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ دفعہ 10(2) ہے، جس کے لیے سزا ہے، جو ایک پجاری یا شخص پر نافذ ہوتا ہے، جو اجتماعی مذہب تبدیلی کے ذریعہ دوسروں کا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 10(2) کی اہلیت کو کسی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی شکل میں نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ دوسروں کو بدلنے کا کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔


مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے نومبر 2022 میں اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت کو بالغ شہریوں پر مقدمہ چلانے سے روک دیا تھا، اگر وہ اپنی خواہش سے شادی کرتے ہیں اور مدھیہ پردیش مذہبی آزادی ایکٹ 2021 کی دفعہ 10 کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ التزام کے مطابق مذہب تبدیلی کرنے کا ارادہ رکھنے والے اشخاص اور مذہب تبدیلی کرنے والے پجاری کو اپنے ارادے کے بارے میں 60 دن پہلے ضلع مجسٹریٹ کو مطلع کرنا ہوگا۔

ہائی کورٹ نے ایکٹ کی دفعہ 10 کو پہلی نظر میں غیر آئینی پایا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ آئندہ حکم تک عرضی دہندہ بالغ شہریوں پر مقدمہ نہیں چلائے گا۔ اگر وہ اپنی خواہش سے شادی کرتے ہیں تو ان کے خلاف ایکٹ 21 کی دفعہ 10 کی خلاف ورزی سے متعلق سخت کارروائی نہیں کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔