پالگھرموب لنچنگ کے لئے حکومت کی غیرسنجیدگی ذمہ دار... نواب علی اختر
گزشتہ انتخابات کے بعد بی جے پی کی انتہا پسندی کو ٹھکرا کر کانگریس کا ‘سیکولر’ ہاتھ تھامنے والی شیوسینا کا دماغ ’صاف‘ ہوتا نظر آرہا ہے۔
بی جے پی کے زیر قیادت مرکزی حکومت کی مبینہ شہہ پر ہندوستانی میڈیا کے ایک طبقہ کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کا اثر اب پورے ملک میں نظر آنے لگا ہے، کسی کو کہیں پر بھی مشتبہ سمجھ کر زدو کوب کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے اور پھر ایک ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جس میں سماج تقسیم ہو کر ایک دوسرے کا دشمن ہوجاتا ہے۔ اس نفرت انگیز مہم کے خالق بھگوا بریگیڈ کا مقصد حالانکہ اقلیتوں کو ڈرا کر اپنے تابعدار بنانا تھا مگر ان کی یہ کوشش اب انتہا پسندوں کے لیے وبال جان ثابت ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : درباری صحافت سے معیشت کی بدحالی ندارد... نواب علی اختر
جب سے بی جے پی مرکز پر قابض ہوئی ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد کی خطرناک مہم چل پڑی، جس میں حجومی تشدد کے ذریعہ متعدد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہی سلسلہ اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی شروع ہو گیا ہے مگر حکومت قانونی شکنجہ کسنے کے برعکس اجتماعی تشدد کو انجام دینے والوں کے تئیں چشم پوشی کرتی رہی۔ یہ سب حکومت کے وزیروں کے ذریعہ اجتماعی تشدد کو انجام دینے والے ملزمین کا گل پوشی کر کے استقبال کیے جانے کا اثر ہے، جو اب خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ اطلاع کے مطابق کچھ ملزمان کو سرکاری ملازمت سے بھی نوازا گیا ہے۔
حکومت کے وزیر و حامی مسلسل اجتماعی تشدد کو انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہاراشٹر کے پالگھر علاقے میں دو سادھوؤں و ان کے ڈرائیور کو اجتماعی تشدد کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ملزمین بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ اس معاملے میں مہاراشٹر حکومت کی طرف سے بروقت کارروائی کر کے قصورواروں کو گرفتار کر کے غیرجانبدار حکمرانی کا اشارہ دیا گیا ہے۔ موجودہ ریاستی حکومت کی طرف سے ایسی ہی کارروائی کی امید تھی کیونکہ ریاستی اقتدار کا سیاسی جغرافیہ اب بدل چکا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد بی جے پی کی انتہا پسندی کو ٹھکرا کر کانگریس کا 'سیکولر' ہاتھ تھامنے والی شیوسینا کا دماغ ’صاف‘ ہوتا نظر آرہا ہے۔
ان حالات میں مرکزی حکومت نے اب بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا تو بعید نہیں کہ ہندوستان کی شناخت ’لنچستان‘ کے طور پر قائم ہوجائے اور جب حکومت کو اپنی لاپرواہی کا احساس ہو مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ ملک میں ہجومی تشدد کے خلاف مودی حکومت کے سنجیدگی سے نہیں لینے کی وجہ سے ہی ایک مرتبہ پھر اجتماعی تشدد کے ذریعہ ممبئی سے 125 کلو میٹر دور مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے ایک گاؤں میں تین افراد کو کار سے کھینچ کر بہیمانہ طریقے سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ خبروں کے مطابق تینوں لوگ ایک انتم سنسکار میں شامل ہونے کے لیے ممبئی سے گجرات کے سورت جا رہے تھے مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں ریاست دادر نگر حویلی کے سلواسا علاقے میں روک دیا گیا۔
یہ علاقہ ریاست گجرات اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع ہے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو راستے میں گڑھ چنچلے گاؤں کے لوگوں نے بچہ چور ہونے کے شک میں ان کی گاڑی رکوائی اور ان پر حملہ کر دیا۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں پیش آنے والے ہجومی تشدد کے واقعات کو حکومت نے سنجیدگی سے لیا ہوتا تو شاید یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔ یہ موب لنچنگ پوری انسانیت و آئین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ چند روز بعد واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی اور بعض افراد نے اس ’موب لنچنگ‘ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی، لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔
اسی درمیان گاؤں کی آبادی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق گڑھ چنچلے گاؤں میں 248 خاندان رہتے ہیں اور وہاں کی کل آبادی 1208 لوگوں پر مشتمل ہے۔ گڑھ چنچلے گاؤں کے سماجی پہلو اور آبادی پر ریسرچ کرنے والی تنظیم ’پول ڈائری‘ کے مطابق اس گاؤں میں 1198 خاندان قبائلی ہیں اور صرف ایک خاندان ہے جس کا تعلق نام نہاد ’پسماندہ‘ ذات سے ہے۔ 56 فیصد آبادی کا تعلق کوکنا نامی قبائل سے ہے، 34 فیصد ورلی قبائل، 6 فیصد کتکری قبائل اور 4 فیصد لوگوں کا تعلق پسماندہ ذات ملہر سے ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں میں ایک بھی مسلمان خاندان نہیں ہے۔
اس اجتماعی قتل کے معاملے میں شرپسندوں نے ملک کی فضا کو درہم برہم کرنے کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن مہاراشٹر حکومت نے ’مرنے والے اور مارنے والوں کے مذہب میں کوئی فرق نہیں ہے‘ کہہ کر بھگوا بریگیڈ کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ فوری تفتیش میں یہ واضح ہوگیا کہ ملزمان اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کچھ شرپسندوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور وہ سوشل میڈیا پر مسلم نام کا پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے لگے مگر اسی دوران مہاراشٹر حکومت کے وزیر داخلہ نے ٹوئٹر کا سہارا لے کر انتہا پسندوں کی اس کوشش کو بھی ناکام کر دیا۔
ریاستی وزیر داخلہ انل دیشمکھ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اپوزیشن پالگھر واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مصروف ہے جبکہ اس معاملہ میں گرفتار 101 لوگوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ سیاست کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ ’مونگری لال کے حسین سپنے‘ دیکھ رہے ہیں، یہ وقت سیاست سے کھیلنے کا نہیں ہے بلکہ کورونا وائرس کا اجتماعی طور پر مقابلہ کرنے کا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔