نتیش کمار کے قدم نے شیوسینا-این سی پی میں پھونکی نئی روح، خفیہ منصوبہ ہو رہا تیار!
مہاراشٹر کی اہم اپوزیشن پارٹیوں میں شامل این سی پی نے فی الحال مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) میں ہی بنے رہنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے این ڈی اے سے ترک تعلق کر ایک بار پھر مہاگٹھ بندھن کی پارٹیوں کے ساتھ حکومت سازی کر لی ہے۔ اس قدم سے جہاں انھوں نے بی جے پی سے چھٹکارا پا لیا، وہیں بہار میں تقریباً سبھی ریاستی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ کانگریس کی بھی قربت حاصل کر لی۔ این ڈی اے سے نکلنے کے بعد نتیش کمار اور جنتا دل یو کے لیڈران لگاتار بی جے پی پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ جنتا دل یو کو کمزور کرنے کی سازش تیار کر رہی تھی۔ یعنی اس سے پہلے کہ بی جے پی مہاراشٹر کی طرح بہار میں کوئی ’سیاسی کھیل‘ کھیلتی، نتیش کمار نے ہی ’کھیلا‘ کر دیا۔ نتیش کمار کے اس دانشمندانہ اور دور اندیشانہ قدم سے اب مہاراشٹر کی شیوسینا اور این سی پی بھی متحرک نظر آنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان دونوں پارٹیوں میں نئی جان آ گئی ہے اور بی جے پی سے مقابلے کی تیاریوں میں یہ سرگرم ہو گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر کی اہم اپوزیشن پارٹیوں میں شامل این سی پی نے فی الحال مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) میں ہی بنے رہنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ این سی پی سپریمو شرد پوار بہار کے واقعہ کے بعد کوئی خفیہ منصوبہ بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ موصولہ خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی اور نئے اتحاد (جنتا دل یو، آر جے ڈی، کانگریس، بایاں محاذ اور ہندوستانی عوام مورچہ) بننے کے بعد مہاراشٹر میں این سی پی سپریمو شرد پوار نے سابق وزیر اعلیٰ اور شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی ہے۔ شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی اس ملاقات کے دوران اسمبلی میں حزب مخالف لیڈر اجیت پوار، این سی پی کے ریاستی صدر جینت پاٹل اور سابق وزیر چھگن بھجبل، سنیل تتاکارے جیسے لیڈر شامل تھے۔ ان لیڈروں نے ٹھاکرے کی رہائش ماتوشری میں تقریباً ایک گھنٹے تک تبادلہ خیال کیا۔
این سی پی اور شیوسینا کی اس خفیہ میٹنگ میں شامل ہونے والے ایک لیڈر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ این سی پی قیادت کا ماننا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ ان کا سیاسی اتحاد ہی ان کے وجود کو بچائے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانونی لڑائی طویل چلنے کا امکان ہے، لیکن اگر سبھی تین پارٹیاں ساتھ رہیں گی اور مل کر انتخاب لڑیں گی تو ریاست میں سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔