دہلی فساد میں اپنی آنکھ کھونے والے ناصر کو نہیں مل رہا انصاف
محمد ناصر خان نے قومی آواز کے نمائندہ کو بتایا کہ 24 فروری کو فسادیوں کے ہجوم نے جس میں نریش تیاگی نامی شخص بھی شامل تھا اس نے میری آنکھ میں گولی مار کر ہمیشہ کے لئے میری ایک آنکھ کی روشنی چھین لی۔
نئی دہلی: دہلی میں فروری ماہ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں جن لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور جن کا بھاری مالی نقصان ہوا یا جو لوگ فساد میں زخمی ہوئے ہیں، ان میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کو ابھی تک انصاف تو دور ان کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی گی ہے۔ دہلی فساد میں اپنی ایک آنکھ گنوانے والے محمد ناصر خان جو شمال مشرقی دہلی کے علاقے گونڈہ میں مقیم ہیں۔ گزشتہ پانچ ماہ سے پولیس اسٹیشن کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن اب تک ان کو انصاف نہیں ملا ہے۔
محمد ناصر خان نے قومی آواز کے نمائندہ کو بتایا کہ 24 فروری کو فسادیوں کے ہجوم نے جس میں نریش تیاگی نامی شخص بھی شامل تھا اس نے میری آنکھ میں گولی مار کر ہمیشہ کے لئے میری ایک آنکھ کی روشنی چھین لی، مسلسل شکایت کرنے کے باوجود اب تک نریش تیاگی کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ پورے معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے ناصر نے بتایا کہ 22 فروری کو میں شمال مشرقی دہلی میں نہیں تھا، اس دن شالیمار باغ میں واقع میکس اسپتال میں میری بہن کا پتھری کا آپریشن ہوا تھا اور 24 فروری کے دن میری بہن کو میکس اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا، تو بہن کو اسپتال سے گھر لانے کے لیے میں نے اولا کیب بک کی تھی، جب میں اپنے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ مین روڈ کے سبھی راستے بند ہیں، میں اس بات سے بالکل واقف نہیں تھا کہ شہر میں فساد ہو گیا ہے۔
ناصر نے بتایا کہ ربڑ فیکٹری چوک پر ہمیں کچھ لوگوں نے روک لیا، ویان پر موجود لوگوں نے میرا نام پوچھا تو میں نے انہیں اپنا نام کرشنا بتایا اور کہا کہ یہ میری بہن ہے جس کی میکس اسپتال سے چھٹی ہوئی ہے۔ یہ بات سن کر اُنہوں ہمیں جانے دیا۔ ناصر نے بتایا کہ چونکہ وہ اس علاقے کا رہنے والا تھا اس لئے اسے سارے راستے معلوم تھے، کسی طرح تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہ اپنے گھر پہنچا۔ گھر پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہاں فساد ہوگیا ہے اور کئی لوگوں کی جان بھی جا چکی ہے، اس وجہ سے راستے بند ہیں اور پورے علاقے کا ماحول خراب ہے۔
ناصر نے بتایا کہ کیب ڈرائیور ہندو تھا میں نے اس سے کہا کہ ابھی ماحول خراب ہے تم یہی ٹھہر جاؤ، ایسے ماحول میں جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ڈرائیور ہمارے گھر پر رک گیا، لیکن دو گھنٹے بعد ڈرائیور کی اہلیہ کا فون آتا ہے وہ کافی بے چین تھی، اس کی اہلیہ فون کرکے بار بار کہہ رہی تھی کسی بھی طرح وہ وہاں سے نکل جائے۔ میرے لاکھ روکنے کے باوجود وہ نہیں روکا۔ میں نے سوچا کہ جس نے ہمیں گھر تک سلامتی کے ساتھ چھوڑا ہے مجھے بھی اس کو یہاں سے صحیح سلامت واپس بھیجنا چاہیے۔
ناصر نے بتایا کہ میں شارٹ کٹ راستوں سے ڈرائیور کو گوکل پوری میٹرو اسٹیشن تک چھوڑا اور اس کو روانہ کر دیا۔ اس کے بعد ایک ہندو دوست نے مجھے وجے پارک تک چھوڑ دیا، کیوںکہ آگے کا ماحول کافی زیادہ خراب تھے۔ جس طرف بھی میں جاتا اس طرف بھیڑ ہی بھیڑ نظر آتی، تاہم میں بھیڑ سے بچنا چاہتا تھا۔ رات نو بجے جب میں اپنی گلی کے نزدیک پہنچا تو لوگ جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، ان کے پاس لاٹھی، ڈنڈے اور تلواریں بھی تھیں۔ ناصر نے بتایا کہ وہ لوگ اُن کو جانتے تھے۔ اس لیے مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھے جانے دیں گے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ پڑوس کے رہنے والوں کو بھی مار رہے ہیں، جیسے ہی میں اپنی گلی میں داخل ہوا، مجھے جے شری رام کا نعرہ لگانے والی بھیڑ نے روک لیا اور مار پیٹ شروع کر دی۔ اسی دوران بھیڑ میں سے نکل کر نریش تیاگی نے مجھ پر فائرنگ کر دی۔ جس کی ایک گولی میری آنکھ کو چیرتی ہوئی نکل گئی، جس سے میں لہولہان ہوگیا۔
ناصر نے بتایا کہ اس نے ڈیڑھ گھنٹہ تک پولیس کو فون کرتا رہا، لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا، اس دوران کوئی سواری نہیں مل رہی تھی، پھر گلی میں رہنے والے ایک آٹو رکشا چلانے والے نے مجھے کسی طرح اسپتال تک پہنچایا، اسپتال پہنچنے تک ہمیں کئی بار روکا گیا، لیکن آٹو رکشا کی رفتار کافی تیز تھی اس لیے وہ ہمیں نہیں روک پائے۔ ناصر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نریش تیاگی، سبھاش تیاگی، اُتم تیاگی اور سشیل پوری بھیڑ کو لیڈ کر رہے تھے۔ یہ سبھی لوگ مجھ سے تین چار گلی چھوڑ کر ہی رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب میں اسپتال سے ڈسچارج ہوا تو ایم ایل سی نمبر دیا گیا، 8 جولائی تک کوئی پولیس اہلکار میرے پاس نہیں آیا، میں اپنی کمپلینٹ لے کر کافی مرتبہ پولیس اسٹیشن بھی گیا۔ ان کا یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم گھر پر آکر ہی تمہارا بیان لے لیں گے اور میری درخواست لینے سے انکار کر دیا۔ جب مجھے پتہ چلا مصطفی آباد عیدگاہ میں فساد متاثرین کے لیے لئے راحت رسانی کا کیمپ لگا ہے۔ میں وہاں پر گیا۔ وہاں ایک اے ایس آئی موجود تھے جو مجھ سے کافی بدتمیزی سے پیش آیا۔ وہ کہنے لگا میں تمہیں جانتا ہوں، لوگوں کے کہنے کے پر انہوں نے میری کمپلینٹ درج کی، لیکن اس کے بعد بھی کوئی پولیس اہلکار کر میرے گھر نہیں آیا۔
20 مئی کو بھجن پورہ تھانہ کے ایس ایچ او سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ ابھی کرونا وائرس چل رہا ہے میں نہیں مل سکتا۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے اوپر ایک بار حملہ ہو چکا ہے، دوبارہ اگر جان لیوا حملہ ہوگا تو کون ذمہ دار ہوگا۔ جنہوں نے مجھ پر حملہ کیا تھا وہ مجھ سے ملنے آئے تھے اور کہہ رہے تھے اگر تو نے کمپلینٹ درج کرائی تو وہ دوبارہ گولی مار دیں گے۔ ناصر نے یہ بھی بتایا کہ آٹھ جولائی کو بھجن پورہ تھانہ سے روہت کمار نامی کانسٹیبل آیا۔ وہ میرا بیان لکھ رہا تھا میں نے ااس سے دریافت کیا کہ میری ایف آئی آر کا کیا ہوا تو اس نے جواب دیا کسی کو تھانے میں بھیج دینا میں دے دوں گا۔
ایف آئی آر کی کاپی جب میرے ہاتھ لگی تو اس میں کہانی یہ تھی کہ سی اے اے کی حمایت اور مخالفت میں احتجاج چل رہا تھا اس میں اچانک پتھر بازی اور فائرنگ شروع ہوگئی۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا ایس ایچ او صاحب وہاں گئے اور سمجھایا قانون اپنے ہاتھ میں مت لو ورنہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد مزید فورس بلائی گئی جب یہ لوگ جانے لگے تو وہ لوگ توڑ پھوڑ کر رہے تھے، جس میں 7 لوگ زخمی ہوئے اُن 7 میں میرا بھی نام تھا۔
ناصر نے بتایا کہ ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ہم سے بیان لینے گئے تھے جبکہ 25 فروری کو ہمیں ہوش آگیا تھا، 28 فروری کو پولیس نے لکھا کہ انہوں نے کوئی بیان نہیں دیا نہ ہی کوئی شکایت درج کرائی ہے، حالانکہ 7 جولائی سے پہلے کوئی پولیس اہلکار ہمارے پاس نہیں آیا۔ ناصر نے پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مجھے میرا بیان دکھائے بغیر ہی چارج شیٹ داخل کردی۔ ناصر نے بتایا کہ جب آئی او راہل سے میں نے سوال کیا کہ مجھ پر گولی سے حمله ہوا ہے تو دفعہ 307 لگنی چاہیے، ایف آئی آر میں 370 ہے تو انہوں نے قلم سے ایف آئی آر پر 307 لکھ دیا۔ جبکہ وہ کمپیوٹر سے ٹیپ ہونا تھا۔ آئی او نے کہا کہ تمہیں معاوضہ ملے گا، میں نے کہا کہ مجھے معاوضہ نہیں انصاف چاہیے میری ایک آنکھ جا چکی ہے۔ جبکہ میں فساد میں شامل ہی نہیں تھا۔
آخر میں ناصر نے بتایا کہ کچھ لوگ گمچھے سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، دیکھو یہی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کچھ دن پہلے ایک صحافی میرے پاس آئے تھے اور وہ جس مقام پر مجھ پر حملہ ہوا تھا وہاں کی فوٹو لے رہے تھے تبھی وہاں بھیڑ جمع ہو گئی۔ ہمیں وہاں سے جانا پڑا۔ ناصر نے کہا کہ مجھے خوف میں رہ کر زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابھی تک صرف 20 ہزار روپے کی مدد ہی مجھے مل پائی ہے۔ پولیس سے نا امید ہوکر اب ناصر خان نے کورٹ سے انصاف کی گہار لگائی ہے، ناصر کو امید ہے کہ انہیں کورٹ سے انصاف ضرور ملے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔