مودی حکومت نے 8 کروڑ ملازمتیں پیدا نہیں کیں بلکہ اعداد و شمار کے ساتھ بازیگری کی ہے، کانگریس کا الزام

کانگریس کا کہنا ہے کہ روزگار میں اضافہ کا جو دعویٰ کیا جا رہا ہے اس میں خواتین کے ذریعہ کیے جانے والے بغیر تنخواہ والے گھریلو کام کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ دکھائے گئے روزگار کا ایک بڑا حصہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

علامتی تصویر، سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

وزیر اعظم نریندر مودی نے 14 جولائی کو ممبئی میں دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ تین چار سالوں میں 8 کروڑ ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ پی ایم مودی کے اس دعوے پر کئی لوگوں نے سوال اٹھائے ہیں، خصوصاً کانگریس لگاتار حملہ آور دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے اس معاملے میں آج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک طویل بیان جاری کیا ہے جس میں کچھ اہم نکات پیش کیے گئے ہیں۔ اس پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روزگار میں اضافہ کا جو دعویٰ کیا جا رہا ہے اس میں خواتین کے ذریعہ کیے جانے والے بغیر تنخواہ والے گھریلو کام کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ دکھائے گئے روزگار کا ایک بڑا حصہ ہے۔

اپنے بیان میں جئے رام رمیش کہتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں جب ہندوستان سنگین طور پر مودی-میڈ بے روزگاری کا سامنا کر رہا ہے، جب ہر ملازمت کے لیے لاکھوں نوجوان درخواست کر رہے ہیں، تب خود ساختہ غیر حیاتیاتی وزیر اعظم چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے، توجہ بھٹکانے اور حقیقت سے انکار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آر بی آئی کے نئے اندازہ کی بنیاد پر حکومت جاب مارکیٹ میں تیزی کا دعویٰ کر رہی ہے۔ خود ساختہ پرماتما کے اَوتار نے خود یہ دعویٰ کیا ہے کہ معیشت نے 80 ملین (8 کروڑ) ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ روزگار کے اعداد و شمار میں مبینہ اضافہ پی ایم مودی کی مدت کار میں معیشت کے سنگین حقائق کے مطابق نہیں ہیں، جہاں پرائیویٹ سرمایہ کاری کمزور رہی ہے اور صارفیت میں اضافہ انتہائی سست ہے۔ حکومت نے روزگار کے معیار اور حالات پر توجہ دیے بغیر روزگار کی بہت وسیع تعریف اختیار کر روزگار پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے کے لیے کچھ مہارت کے ساتھ اعداد و شمار کی بازیگری کی ہے۔‘‘


کانگریس جنرل سکریٹری نے اس بیان کے بعد کچھ انتہائی اہم حقائق سے لوگوں کو روشناس کرایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’روزگار میں اضافہ کا جو دعویٰ کیا جا رہا ہے اس میں خواتین کے ذریعہ کیے جانے والے غیر تنخواہ والے گھریلو کام کو بھی ’روزگار‘ کی شکل میں درج کیا گیا ہے۔ یہ روزگار اضفاہ کا ایک بڑا حصہ ہے، لیکن اس میں کوئی تنخواہ نہیں ملتی۔ خراب معاشی ماحول کے درمیان لیبر مارکیٹ میں تنخواہ والے، رسمی روزگار کی حصہ داری میں کمی آئی ہے۔ مزدور کم پروڈکشن والے غیر منظم اور زرعی شعبہ کی ملازمتوں کی طف جا رہے ہیں جو کہ ایک بحران والی حالت ہے۔‘‘

جئے رام رمیش جاری کردہ بیان میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’80 ملین نئی ملازمت والی سرخی میں ملازمتوں کے معیار پر بحث اس طرح سے نہیں ہوئی، لیکن یہ مضحکہ خیز ہے کہ حکومت ان کم پیداواری (پروڈکٹیویٹی)، کم تنخواہ والی ملازمتوں کے ’پیدا‘ ہونے کو ایک حصولیابی کی شکل میں پیش کر رہی ہے۔ اسی دھوکہ کے سبب آر بی آئی کا ڈاٹا کووڈ-19 وبا کے سالوں کے دوران روزگار میں اضافہ دکھاتا ہے، جبکہ تب معیشت کا بڑا حصہ پوری طرح سے ٹھپ پڑا ہوا تھا۔ تعلیم جیسے اہم شعبوں میں 21-2020 میں 12 لاکھ کم ملازمتیں دیکھی گئیں، وہیں زراعت میں 1.8 کروڑ ’ملازمتیں‘ پیدا ہوئیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس طرح فیکٹری ملازمین، اساتذہ، کانکن وغیرہ جو کووڈ-19 کے دوران گھر لوٹ آئے اور انھیں اپنے کنبہ کے کھیتوں میں کھیتی کرنی پڑی یا انھیں امیر کسان کے لیے کرایہ دار کی شکل میں کام کرنا پڑا، انھیں بھی زراعت کے شعبہ میں رجسٹرڈ ملازمت کی شکل میں دکھا دیا گیا ہے۔‘‘


جئے رام رمیش نے اپنے بیان میں آئندہ بجٹ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’آئندہ بجٹ بھی بلاشبہ معیشت کی گلابی تصویر پیش کرنے کے لیے آر بی آئی ڈاٹا کا استعمال کرے گا۔ لیکن ملازمتوں کے محاذ پر حقیقی حالات بے حد سنگین ہیں، بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور کم معیار والے روزگار دونوں کی وجہ سے۔ اگلے منگل کو بجٹ تقریر میں اس دوہرے بحران کو یقینی طور سے نظر انداز کیا جائے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔