ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی دفاع میں کھڑے ہوئے دانشوران، مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ

کئی علماء و دانشوروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت سے عبارت ہے، ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنا ناقابل فہم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ملک کی سرکردہ شخصیات نے ایک بیان کی وجہ سے تنازعہ میں پھنسے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مبینہ کردارکشی کی سخت مذمت کی ہے۔ متعدد ملی دانشوروں، علماء اور اہم شخصیات نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت سے عبارت ہے، ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنا قطعی ناقابل فہم ہے۔

جاری کردہ مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والوں میں محمدادیب(سابق ممبرپارلیمنٹ)، مولاناانیس الرحمن قاسمی(سابق ناظم امارت شرعیہ بہارواڑیسہ)، پروفیسر اخترالواسع(صدر مولاناآزادیونیورسٹی، جودھپور)، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس(صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا)، پروفیسر محسن عثمانی ندوی(صدر مولاناعلی میاں ویلفیئر بورڈ)، مفتی عطاالرحمن قاسمی(سابق رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، معصوم مرادآبادی(سکریٹری آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس)، پروفیسرعلی جاوید(سابق استاد شعبہ اردوہلی یونیورسٹی)، انیس درانی(کالم نگار)، نیلوفر سہروردی(کالم نگار)، زیڈ کے فیضان(ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) وغیرہ شامل ہیں۔


دستخط کنندگان نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو غلط طریقے سے پھنسائے جانے کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے "میڈیا ٹرائل" کی بھی شدید مذمت کی اور استدلال کیا ہے کہ انہیں جس فیس بک پوسٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے، وہ دراصل ہندتوا طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنانے کے خلاف تھی جس میں حکومت کویت کے اس موقف کی تائید کی گئی تھی جو اس نے شمال مشرقی دہلی کے مسلم کش فساد کی مذمت اور مظلومین کے حق میں اختیار کیا تھا۔

مشترکہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متنازعہ پوسٹ میں ہندوستان یا یہاں کی حکومت کے بارے میں کچھ نہیں تھا۔ میڈیا پر جان بوجھ کر ان کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں ایسے فرضی بیان کی آڑمیں نشانہ بنایا جارہا ہے جو انھوں نے دیا ہی نہیں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس اور حکومت کو کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے پہلے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ان کی قومی وملی خدمات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو اورشر پسند اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔


مشترکہ بیان میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی شناخت ملک گیر سطح پر انسانی حقوق کے ایک بے لوث خادم کی ہے اور انھوں نے ہمیشہ دستور کی آزادی اور اس کی اقدار کا دفاع کیا ہے۔انھوں نے اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور دہلی میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ہم حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف جاری "منافرانہ" مہم پر لگام لگائے او ر ایک قانون کے پابند شہری کی حیثیت سے ان کے شہری حقوق کاتحفظ کیا جائے اور ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر منسوخ کی جائے۔ یہ بھی واضح رہنا رہنا چاہئے کہ ہندوستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہے نہ کہ پولیس اسٹیٹ اور جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 May 2020, 10:11 PM