منی پور تشدد: کوکی اراکین اسمبلی نے ریاست میں ’افسپا‘ نافذ کرنے کا کیا مطالبہ
10 کوکی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ ریاست میں افسپا نافذ کرنا لوٹے گئے ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے ضروری ہے۔
منی پور میں کوکی اراکین اسمبلی نے ریاست میں ’افسپا‘ لگانے کی مانگ کی ہے۔ 10 کوکی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ یہ قدم لوٹے گئے ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے ضروری ہے۔ جن اراکین اسمبلی نے ریاست میں افسپا نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان میں حکمراں بی جے پی اتحاد کے 7 اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں۔ ان اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ 14 نومبر 2024 کے احکامات کے مطابق ’افسپا‘ نافذ کرنے کے لیے فوری طور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ’آرمڈ فورسیز اسپیشل پاورس ایکٹ‘ (افسپا) کو مزید 13 پولیس تھانوں تک بڑھایا جا سکے۔
کوکی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 3 مئی سے میتئی کے ذریعہ لوٹے گئے 6000 سے زیادہ جدید ترین اسلحوں کی بازیابی کے لیے پوری ریاست میں ’افسپا‘ نافذ کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ منی پور میں جاری تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کوکی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو تشدد زدہ علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اس درمیان کوکی اراکین اسمبلی نے قبائلی اراکین اسمبلی کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ دراصل قبائلی اراکین اسمبلی نے 7 دنوں کے اندر جریبام ضلع میں 3 خواتین اور 3 بچوں کے قتل کے ملزمین کوکی عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی مانگ کی تھی۔ کوکی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ یہ تجویز تفرقہ انگیز، یک طرفہ اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 6 شہریوں کی موت سے متعلق معاملہ این آئی اے کو سونپنے کا مطالبہ فرقہ وارانہ سوچ کی حامل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت نے منی پور کے 6 تھانہ علاقوں میں پھر سے مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ (افسپا) نافذ کر دیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی خطہ کو ’بدامن‘ قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے سیکورٹی فورسز کو وہاں موثر کارروائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں جریبام بھی شامل ہے، جہاں حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ جن 6 تھانہ علاقوں میں مسلح افواج تعینات کیے گئے ہیں ان میں امپھال مغربی ضلع کے سیکمئی اور لام سنگ، امپھال مشرقی ضلع کے لمسائی، جریبام ضلع کے جریبام، کانگپوکپی ضلع کے لیئماکھونگ، بشنو پور ضلع کے موئرنگ علاقے شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔