’منی پور تشدد کو روکا جا سکتا تھا لیکن قصداً ایسا نہیں کیا گیا‘، بی جے پی رکن اسمبلی ہاؤکپ کا بیان
کوکی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی پاؤلینلال ہاؤکپ کا کہنا ہے کہ منی پور تشدد میں ریاستی حکومت شامل ہے، حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی تشدد نہیں رک رہا۔
ایک طرف اپوزیشن پارٹیاں منی پور معاملے پر پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کا مطالبہ لگاتار کر رہے ہیں، اور دوسری طرف آج پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ جب میں پارلیمنٹ میں جواب دینے کے لیے تیار ہوں تو اپوزیشن منی پور معاملے پر بحث کیوں نہیں ہونے دے رہی۔ اس درمیان منی پور کے بی جے پی رکن اسمبلی پاؤلینلال ہاؤکپ نے ایک انتہائی حیران کرنے والا بیان دیا ہے۔ کوکی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ہاؤکپ کا کہنا ہے کہ ’’منی پور تشدد میں ریاستی حکومت شامل ہے، حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی تشدد نہیں رک رہا۔‘‘ وہ واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ’’ریاست میں جاری نسلی تشدد کو روکا جا سکتا تھا، لیکن ایسا قصداً نہیں کیا گیا۔‘‘
منی پور میں نسلی تشدد کو لے کر بی جے پی رکن اسمبلی نے ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چراچندپور کی سیکوٹ سیٹ سے رکن اسمبلی ہاؤکپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے طویل مدت تک خاموش رہنے پر کہا کہ 79 دنوں کو بھول جائیے، اتنے بڑے تشدد کے لیے ایک ہفتہ (بولنے کے لیے) بھی بہت زیادہ وقت ہے۔ ہاؤکپ کہتے ہیں کہ خاموش رہنے کا مطلب نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔
یہ باتیں ہاؤکپ نے ’نیوز لانڈری‘ کے نامہ نگار شیونارائن راجپوروہت کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہیں۔ ہاؤکپ نے بتایا کہ انھوں نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی اور وزیر اعظم سے ملنے کا وقت مانگا تھا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں آج بھی جواب کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ انھیں حالات کی سنگینی سے واقف کرا سکوں۔‘‘ ہاؤکپ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ’’میں یہ مان رہا ہوں کہ امت شاہ وہاں کے حالات کی سنجیدگی کو لے کر وزیر اعظم کو رپورٹ کرنے میں ناکام رہے۔ 79 دنوں کو بھول جائیے، اتنے بڑے تشدد کے لیے ایک ہفتہ بھی بہت ہوتا ہے۔ کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ میں اپنے لوگوں کا لیڈر ہونے کے ناطے بہت مایوس ہوں۔‘‘
انٹرویو میں بی جے پی رکن اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم مودی کے امریکہ دورے سے پہلے انھوں نے ملاقات کی کوشش کی تھی۔ اب کوکی طبقہ کو لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی ترجیحات ہی غلط ہیں۔ ہاؤکپ نے کہا کہ ’’میں وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کی اہمیت کو کم نہیں سمجھ رہا ہے، لیکن جب آپ کے لوگ مارے جا رہے ہیں تو تھوڑا وقت آپ کو دینا چاہیے۔ جب تک انسانی ظلم کے ان واقعات کی ویڈیو سامنے نہیں آئیں گی، تو کیا حکومت کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔‘‘
دراصل منی پور میں خواتین کو برہنہ سڑک پر گھمانے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ہی وزیر اعظم مودی کا بیان سامنے آیا تھا۔ پی ایم مودی نے کہا تھا کہ منی پور کے حالات دیکھ کر وہ تکلیف اور غصہ سے بہت زیادہ بھرے ہوئے ہیں۔ کسی بھی طرح کے تشدد کو بات چیت سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ منی پور کی ویڈیو پریشان کرنے والی ہے، (خواتین کے ساتھ) جو حادثہ پیش آیا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ کسی بھی مہذب سماج کے لیے یہ شرمسار کرنے والا ہے۔ ساتھ ہی پی ایم مودی نے کہا تھا کہ اس معاملے میں سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی۔
بہرحال، بی جے پی رکن امسبلی ہاؤکپ نے انٹرویو کے دوران منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ پر بھی کئی سوال اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ بیرین سنگھ ریاست کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ 4 مئی کے حادثہ کو ہی دیکھیں تو اس معاملے میں ایف آئی آر درج ہو گئی تھی، لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انھیں حادثہ کے بارے میں 19 جولائی کو پتہ چلا۔ یہ نااہلی نہیں، بلکہ کور اَپ (چھپانے کی کوشش) ہے۔ جب ہاؤکپ سے سوال کیا گیا کہ جب سے منی پور کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، کیا مرکزی حکومت نے کوئی بات چیت کرنے کی کوشش کی ہے؟ تو رکن اسمبلی نے بتایا کہ ’’نہیں، ہم اب بھی اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ آخری بار وزیر اعظم کے امریکہ جانے سے پہلے 10 کوکی اراکین اسمبلی نے ملنے کا وقت مانگا تھا، لیکن اب تک جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ کوکی اراکین اسمبلی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے الگ ایڈمنسٹریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ قبائلی لوگوں کے ساتھ نفرت اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ بچوں اور خواتین کو نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ اس مطالبہ پر ہاؤکپ نے کہا کہ ’’الگ انتظامیہ کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ عام لوگوں کو چھوڑ دیجیے، میرے جیسے رکن اسمبلی کی زندگی محفوظ نہیں ہے جو امپھال میں اسمبلی بھی جا سکے۔ ہمارے ایک ساتھ رکن اسمبلی پر بے رحمی سے حملہ ہوا۔‘‘
ہاؤکپ سے ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا وہ بی جے پی چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں؟ اس پر بی جے پی رکن اسمبلی نے کہا کہ ابھی ایسا کچھ نہیں ہے۔ سیاست کبھی کبھی ویٹنگ گیم ہوتی ہے۔ دیکھنا پڑے گا کہ چیزیں کیسے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر ایسا وقت آئے گا جب لگے گا کہ پارٹی میں رہنے سے اپنے لوگوں (جنھوں نے ہم پر اعتماد ظاہر کیا ہے) کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے، تب ہم اپنا فیصلہ لے لیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔