مدرسہ عزیزیہ حملہ: 110 سال قدیم لائبریری کو نذرِ آتش کیے جانے کی تصویریں ذہن کو جھنجھوڑ دیتی ہیں

مدرسہ عزیزیہ کو بی بی صغریٰ نے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں قائم کیا تھا اور بہار کی تاریخ میں ان کا شمار سب سے زیادہ معزز انسان دوست شخصیات میں ہوتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مدرسہ عزیزیہ کی نذرِ آتش لائبریری، تصویر بشکریہ میر فیصل</p></div>

مدرسہ عزیزیہ کی نذرِ آتش لائبریری، تصویر بشکریہ میر فیصل

user

قومی آواز تجزیہ

رام نومی کا جلوس جو ایک مدت سے نالندہ ضلع کے بہار شریف میں نکالا جاتا رہا ہے اور کبھی وہاں کوئی فرقہ وارانہ تشدد یا دیگر کوئی پر تشدد واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن اس سال 31 مارچ یعنی جمعہ کے روز اس جلوس میں جو دیکھنے کو ملا اس نے سب کو اندر سے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ میر فیصل</p></div>

تصویر بشکریہ میر فیصل

31 مارچ کو رام نومی کی شوبھا یاترا کے دوران ہجوم نے شوبھا یاترا کے راستے میں واقع مدرسہ عزیزیہ کو آگ لگا دی اور وہاں موجود لائبریری میں کتابوں کو نذر آتش کر دیا۔ واضح رہے کہ یہ بہار کے نالندہ ضلع کے بہار شریف میں سب سے قدیم مدرسہ اور لائبریری ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس مدرسے میں رمضان کی وجہ سے تعطیل تھی جس کی وجہ سے جانی نقصان نہیں ہوا۔


مدرسہ عزیزیہ کو بی بی صغریٰ نے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں قائم کیا تھا اور بہار کی تاریخ میں ان کا شمار سب سے زیادہ معزز انسان دوست شخصیات میں ہوتا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اس 110 سال پرانی لائبریری میں تقریباً 1,000 افراد کے مسلح ہجوم نے توڑ پھوڑ کی اور بھگوا ہجوم نے مسجد و لائبریری میں پٹرول بم پھینکے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ میر فیصل</p></div>

تصویر بشکریہ میر فیصل

مختلف اخباروں کے دیے گئے اپنے بیانات میں مدرسہ اور لائبریری کے نگراں محمد شہاب الدین نے کہا  کہ مدرسے میں 4500 سے زائد کتابیں تھیں جو آگ میں جل کر تباہ ہو گئیں اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچی۔ بی بی سی ہندی کو انہوں نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہاں سے رام نومی کی شوبھا یاترا گزری اور ماحول پر سکون رہا، لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ آگے اکھاڑے کے پاس کوئی سڑک حادثہ ہوا جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں سے جو ہجوم آیا اس نے مدرسہ میں توڑ پھوڑ کی اور لائبریری کو آگ لگا دی۔ اس لائبریری میں انتہائی نایاب کتابیں تھیں۔


انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ کی خبر کے مطابق مدرسہ کے ایک گارڈ موہن بہادر نے کہا کہ ’’مسلح افراد ’جئے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔‘‘ اس نے یہ بھی بتایا کہ ہجوم نے اس پر حملہ کیا، لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ ساتھ ہی موہن بہادر نے یہ بھی جانکاری دی کہ مسلح افراد اس کے  کمرے سے 3500 روپے لے گئے۔ واضح رہے کہ پولیس پر یہ الزام ہے کہ یہ حملہ دوپہر میں ہوا تھا لیکن رات گیارہ بجے تک پولیس موقع پر نہیں پہنچی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اگلے دن یعنی ہفتہ کو شر پسندوں نے ایک مرتبہ پھر اس مسجد، مدرسے اور لائبریری پر حملہ کیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ میر فیصل</p></div>

تصویر بشکریہ میر فیصل

واضح رہے کہ بہار شریف کے ایک اسٹیڈیم میں رام نومی کے موقع پر تمام جھانکیاں جمع کی جاتی ہیں اور پھر وہاں سے طے شدہ راستے سے یہ یاترا اکھاڑے پر جاتی ہے اور ایک مدت سے یہ یاترا ایسے ہی گزرتی رہی ہے اور یہاں کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ 1981 کے بعد اس طرح کا تشدد نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ 1981 کے فرقہ وارانہ تشدد میں 45 افراد کی جان گئی تھی۔


ماہ رمضان میں جمعہ کا دن ہونے کے باوجود رام نومی کی شوبھا یاترا بہت پر امن طریقے سے وہاں سے گزر گئی تھی لیکن بعد میں یہ سب کچھ ہوا۔ اس کے پیچھے سیاست بھی ہو رہی ہے۔ جہاں بی جے پی بہار کی حکومت کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے وہیں کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ بی جے پی جب بھی خود کو کمزور محسوس کرتی ہے تو وہ فرقہ وارانہ سیاست کا سہارا لیتی ہے۔ انھوں نے رام نومی کے موقع پر ہونے والے ان فرقہ وارانہ تشدد کے لئے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اگر یہی حالات رہے تو اگلے سال بھی رمضان کے مہینے میں ہی رام نومی کی شوبھا یاترا نکلے گی اور اگلے سال عام انتخابات بھی ہیں۔ اس لئے مرکز اور ریاستی حکومت کو انتہائی چست رہنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔