لو جہاد مسلمانوں کے استحصال کا نیا اسلحہ، یوگی حکومت سماج کو تقسیم کرنے میں مصروف
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے ایک آرڈیننس لایا ہے جس میں مذہب تبدیل کرانے پر 10 سال تک کی سزا کا انتظام ہے۔ کہنے کو تو یہ قانون لو جہاد کے واقعات پر روک کے لیے لایا گیا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔
سنیتا (بدلا ہوا نام) اتراکھنڈ کے بھگوان پور میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے شوہر اکشے تیاگی وہاں ٹھیکہ داری کرتے تھے۔ وہاں سنیتا کی ندیم نامی شخص سے جان پہچان ہوئی۔ سنیتا کے شوہر اکشے تیاگی کی مانیں تو ندیم کا تعارف سلمان کے ذریعہ ہوا تھا۔ سلمان دراصل اکشے کا جاننے والا تھا۔ یہاں ندیم اور سنیتا میں نزدیکیاں بڑھ گئیں۔ اکشے تیاگی اور سنیتا کی شادی 12-10 سال پہلے ہوئی تھی اور کچھ سالوں سے وہ ندیم کے رابطے میں تھی۔
اب مظفر نگر کے منصور پور تھانہ میں اکشے تیاگی نے ندیم اور سلمان کے خلاف ’لو جہاد‘ کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ مقامی تھانہ انچارج کے پی سنگھ کے مطابق اکشے تیاگی نے تحریر دے کر بتایا کہ بھگوان پور کے ندیم نے اس کی بیوی کو محبت کے جال میں پھنسا لیا اور مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بنایا۔ پولس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولس اہلکار گرفتاری کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
بھگوان پور کے تبریز ملک کہتے ہیں کہ یہ الزام اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔ خاتون اپنا بیان درج کرانے تھانہ نہیں گئی ہے۔ شادی کو 10 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اور بھگوان پور میں تو یہ لوگ دوست کی طرح رہتے تھے۔
ہفتہ کے روز اتر پردیش حکومت کے ذریعہ تبدیلی مذہب قانون نافذ کیے جانے کے بعد بریلی میں بھی دو مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمہ دیورنیا اور دوسرا عزت نگر تھانہ میں درج کیا گیا ہے۔ عزت نگر والے مقدمے میں مذہب تبدیل کرانے کا ملزم نوجوان اور اس کے والدین کو جیل بھیجا جا چکا ہے جب کہ دیورنیا والے مقدمے میں اویس نامی نوجوان کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔
دیورنیا والے معاملہ میں پولس کے کردار پر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہاں اکتوبر 2019 میں سرلا (بدلا ہوا نام) اپنے محبوب اویس کے ساتھ چلی گئی تھی۔ مقامی تھانہ میں سرلا کے گھر والوں نے کیس درج کرایا تھا جس کے بعد پولس نے مدھیہ پردیش سے عاشق و معشوق جوڑے کو برآمد کر اویس کو جیل بھیج دیا تھا۔ لیکن سرلا نے اس کے بعد اویس کے حق میں بیان دے دیا جس سے کیس ختم ہو گیا۔ پھر سرلا کے گھر والوں نے اس کی شادی اتراکھنڈ میں کر دی۔
لیکن اب ایک سال بعد جب جبراً مذہب تبدیلی کو لے کر قانون آیا ہے تو اویس کے خلاف مذہب تبدیلی کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ سرلا کے والد کشپال کے مطابق پولس نے انھیں تھانے میں پرانے معاملے میں بلایا تھا۔ سرلا کے بھائی نے ایک مقامی اخبار کو بتایا ہے کہ وہ اب کوئی کارروائی نہیں چاہتے ہیں۔ اویس کی بھابھی کے مطابق اویس اب رام پور کے بلاس پور میں کباڑی کا کام کرتا ہے۔ اب اس کا سرلا سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہے۔
دوسری طرف بریلی واقع عزت نگر کا معاملہ تو اس سے بھی جدا ہے۔ یہاں کے طاہر حسین نے کرشمہ (بدلا ہوا نام) سے شادی کی تھی۔ شادی مندر میں ہوئی تھی اور طاہر نے کرشمہ کی مانگ میں سندور بھرا تھا۔ اس وقت طاہر کی فیملی نے طاہر سے دوری بنا لی تھی۔ اب عزت نگر تھانہ میں کرشمہ کی جانب سے رپورٹ درج کرائی گئی ہے کہ طاہر نے اس سے جھوٹ بول کر شادی کی تھی اور اس کے والدین بھی اس کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا حمل ضائع ہو گیا۔ اس پر مذہب تبدیلی کا دباؤ بنایا گیا اور استحصال کیا گیا۔ اس معاملے کے بعد طاہر اور اس کے والدین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لو جہاد پر بنے قانون کو لے کر ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ طالبہ تنوی اسے ایک خیالی بھوت بتاتی ہیں جو خواتین سے محبت کرنے کا حق چھین رہا ہے۔ جامعہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی تنوی سمن کہتی ہیں کہ ہم ایک ایسے سماج میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں جہیز کو محبت کی شادی سے کہیں زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔ دراصل یہ (لو جہاد) ایک خیالی لفظ ہے جسے رائٹ وِنگ طاقتوں کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوری بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اتر پردیش خاتون کانگریس کی نائب صدر عروسہ رانا اس تعلق سے کہتی ہیں کہ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کے استحصال کے لیے لایا گیا قانون ہے۔ جب کوئی سالوں تک رشتے میں رہتا ہے اور تعلقات بھی بناتا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کو نہ جانیں۔ انھوں نے کہا کہ مظفر نگر والے معاملہ میں خاتون 32 سال کی ہے اور 12 سال سے شادی شدہ ہے۔ شادی ہونے کے بعد اس کی دوسرے نوجوان ندیم سے دوستی ہو گئی۔ اب شوہر مذہب تبدیل کرانے کا مقدمہ لکھا رہا ہے، یہ کتنا حیرت انگیز ہے۔
عروسہ رانا نے کہا کہ بریلی میں بھی پولس کی کہانی میں جھول ہی جھول ہے۔ دوسرے معاملوں کی طرح اس میں بھی حکومت کا تعصب صاف نظر آتا ہے۔ وہ صرف سماج کو تقسیم کرنے کے ایشوز تلاش کر رہی ہے۔ انھیں محبت کو سرویلانس کرنےکی جگہ خواتین کے خلاف ہو رہے جرائم کے واقعات پر نکیل کسنی چاہیے جو پوری ریاست میں لگاتار بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔