لاک ڈاؤن: سرکاری نظام پر بھروسہ کر دہلی میں رکنے والے مزدور بےحال

بغیر تیاری کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے اے سی کمرے میں بیٹھ کر سب کچھ ہرا ہرا دیکھنے والوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے 54 کروڑ لوگوں میں سے 90 فیصد غیر منظم سیکٹر میں کام کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

جب پی ایم مودی نے لاک ڈاؤن کا پہلی بار اعلان کیا تھا، تب دہلی سمیت کئی میٹرو پولیٹن شہروں سے مزدور اپنے گھر گاؤں کے لیے پیدل نکل پڑے تھے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ وہ سبھی اپنے گھر پہنچ گئے ہیں، تو آپ غلط فہمی میں ہیں۔ یو پی، بہار سے لے کر آسام تک اب بھی سڑکوں پر پیدل جاتے ایسے لوگ آپ کو نظر آ جائیں گے۔ ان کے عزائم کی آپ تعریف بعد میں کر لیجیے گا، پہلے یہ سوچیے کہ وہ کن بد انتظامیوں کے درمیان ہمارے-آپ کے شہر مین رہ کر 2 وقت کی روزی-روٹی کما کھا رہے تھے۔ سچائی یہ بھی ہے کہ جو کسی وجہ سے ہمارے-آپ کے شہر میں رک گئے، وہ اب افسوس ہی کر رہے ہیں۔

بغیر تیاری اور بغیر سوچے سمجھے کیے گئے لاک ڈاؤن میں اپنے اے سی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سب کچھ ہرا ہرا دیکھنے والے لوگوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے 54 کروڑ لوگوں میں سے 90 فیصد لوگ غیر منظم سیکٹر میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے روزی روزگار کی کسی طرح کی گارنٹی کوئی نہیں دیتا۔ ایک موٹے اندازے کے مطابق ان میں سے 10 کروڑ لوگ مہاجر مزدور ہیں۔ ان میں وہ لوگ ہیں جو تعمیری کاموں میں لگے ہوتے ہیں۔ ہمارے آپ کے یہاں بجلی-الیکٹرک سامانوں سے لے کر پلمبنگ کا کام کرنے آتے ہیں۔ ہمارے آپ کے یہاں اخبار سے لے کر ہر قسم کے سامان، فوڈ پیکٹ تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ ہمارے آپ کے گھروں میں برتن دھونے، جھاڑو پونچھا کرنے سے لے کر کھانا بنانے کا کام کرتے ہیں۔ رکشہ سے لے کر ہر قسم کی موٹر گاڑیاں چلاتے نظر آتے ہیں، دکانوں-ہوٹلوں-ڈھابوں میں کام کرتے ہیں۔ منڈیوں، دکانوں، گوداموں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں سے لے کر ائیر پورٹ تک لوڈنگ-اَن لوڈنگ کا کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگ ہر شہر میں ہیں لیکن ان کا یا تو کہیں گھر نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا بھی ہے تو سینکڑوں-ہزاروں کلو میٹر دور کسی چھوٹے سے گاؤں میں۔


ایسے لوگوں کی دہلی میں بھی بڑی تعداد ہے۔ یہی لوگ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد کسی بھی طرح اپنے گاؤں لوٹنے کو آمادہ نظر آتے تھے۔ جو سرکاری انتظام پر یقین کر کے یا کہیں کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے رک گئے، وہ زبردست مشکل میں ہیں۔ سی پی آئی (ایم) اور سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینس (سیٹو) یا دہلی پولس کی رپورٹ ہو، سب میں کہا جا رہا ہے کہ دہلی میں رک گئے مہاجر مزدور ان دنوں خراب حالات میں گزارہ کر رہے ہیں۔ سی پی آئی اور سیٹو نے ایسے 8870 مزدوروں کے درمیان سروے کر کے جو رپورٹ تیار کی ہے، وہ بتاتی ہے کہ دہلی کی اروند کیجریوال حکومت ان مزدوروں کو مدد کرنے میں کس طرح ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر کے پاس نہ تو راشن کارڈ ہے، نہ آدھار کارڈ۔ کھانے پینے کی چیزیں تو چھوڑ دیجیے، حال یہ ہے کہ بیشتر مزدور ایسے ہیں جن کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں کہ وہ اپنے موبائل تک رچارج کرا سکیں۔ ان میں سے جنھیں آٹا مل گیا، انھیں دال نہیں ملی، جنھیں دال مل گئی انھیں چاول نہیں مل پایا۔

اسی طرح دہلی پولس نے ایسے 15 شیلٹر ہومس کا سروے کیا ہے جہاں مہاجر مزدور ان دنوں رکے ہوئے ہیں۔ دہلی میں کیے گئے اس سروے کی رپورٹ کو انڈین ایکسپریس نے شائع کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان شیلٹر ہومس میں مچھروں کی بھرمار ہے، پنکھے کام نہیں کر رہے۔ جو کھانا انھیں مل رہا ہے، وہ بمشکل ہی کھانے لائق ہے۔ ان لوگوں کے لیے بنے بیت الخلاء میں صبح 7 بجے سے 11 بجے تک ہی پانی آتا ہے۔ نہانے کے لیے تو ایک صابن انھیں مل جاتا ہے لیکن کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے صابن، ڈٹرجنٹ انھیں مل پاتا۔


وزیر اعلیٰ سے لے کر ہر سطح کے لوگ سماجی فاصلہ یعنی سوشل ڈسٹنسنگ کی باتیں تو بڑی بڑی کر رہے ہیں، لیکن بڑے افسران کو بھیجی گئی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان سنٹروں میں اس کا کس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان دنوں اسکول وغیرہ میں کچھ نئے غیر مستقل شیلٹر ہوم بنائے گئے ہیں لیکن ان میں بھی صلاحیت سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح اشتہاروں میں تو ہاتھ بار بار دھونے اور سینیٹائزر کا استعمال کرتے رہنے کی باتیں تو کی جا رہی ہیں، لیکن یہاں ان سب کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ حال یہ ہے کہ ایک ہی ماسک کا استعمال کئی لوگ باری باری سے کرنے کو مجبور ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں صاف صفائی کے ساتھ سینیٹائزیشن کا انتظام کرانے کی سخت ضرورت ہے۔

شیلٹر ہومس میں جو مزدور ان دنوں رہ رہے ہیں، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جنھیں کسی نہ کسی وجہ سے کرایے کے اپنے گھر چھوڑ دینے پڑے۔ سب جانتے ہیں کہ ایسے کئی لوگ کرایہ کے ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں اور وہ الگ الگ شفٹ میں کام کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لیے ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ وقت میں ان کمروں میں رہتے ہیں۔ فطری امر ہے کہ یہ لوگ کمروں کی ہی نہیں، ان کے کرایہ کی بھی شیئرنگ کرتے ہیں۔ یہ زنجیر ٹوٹنے کی وجہ سے کمروں کا کرایہ برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی اور اپنے گاؤں گھر نہ لوٹ پانے کی وجہ سے اب انھیں شیلٹر ہوم کا سہارا لینا پڑا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 May 2020, 1:40 PM