کیوں نہ کہوں: کہاں کا سپر پاور، کیسا سپر پاور... سید خرم رضا

آج کا امریکہ ہر محاذ پر ناکام ہے، چاہے وہ نئے وائرس سے پیدا ہونے والی وبا کو قابو پانے کا معاملہ ہو یا پھر برسوں سے سماج میں موجود نفرت کے سسکتے ہوئے وائرس کو دوبارہ زندہ اور طاقتور کرنے کا معاملہ ہو

user

سید خرم رضا

جس امریکہ کو ہم سپر پاور یعنی دنیا کا سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک قرار دیتے ہیں وہ شائد اس سب کا جائز حقدار نہیں ہے۔ ہم لوگ یا تو بہت سیدھے ہیں، جیسا دکھایا جاتا ہے اس پر ہی یقین کر لیتے ہیں یا پھر یہ سپرپاور اتنا مکار اور ہوشیار ہے کہ پوری دنیا سے خود کو چودھری منوانے میں کامیاب ہے۔


ویسے تو اس ملک کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کورونا وبا کے اعداد وشمار ہی کافی ہیں لیکن گزشتہ پیر سے یہ سپر پاور جس آگ میں جھلس رہا ہے اور اس کی قیادت کے جو بیانات آ رہے ہیں اس کے بعد یہ یقین ہو چلاہے کہ امریکہ سپر پاور کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔

گزشتہ پیر کو 46 سالہ افریقی نژاد امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہتھکڑی لگاتے وقت یعنی پولیس حراست میں موت ہو گئی تھی جس کے بعد سے امریکہ کے کئی حصوں میں پرامن اور پرتشدد دونوں طرح کے مظاہرے شروع ہو گئے جو ابھی تک جاری ہیں۔ جارج فلائیڈ باسکٹ بال اور فٹبال کا کھلاڑی تھا اور فی الحال وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار تھا جبکہ اس سے پہلے وہ ایک ریسٹورینٹ میں گارڈ کی نوکری کرتا تھا اورایک مرتبہ وہ چوری کے الزام میں سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ ڈیرک مائیکل شاون منیا پولس کے اس سفید فام پولیس اہلکار کا نام ہے جس پر جاج فلائیڈ کی موت کا الزام ہے۔ ڈیرک شاون نے جاعج فلائیڈ کوجعلی ڈالر کا نوٹ چلانے کے الزام میں پکڑا تھا۔ ویڈیو کے مطابق فلائیڈ تقریباً سات منٹ تک 44 سالہ ڈیرک شاون سے گڑگڑ کر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے کہتا رہا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا ہے لیکن شاون اپنی نفرت میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کہ اس کو فلائیڈ کی سانس لینے کے لئے بھیک مانگنے کی آواز نہیں سنائی دی۔ ڈیرک شاون کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور اس کے خلاف پہلے ہی 18 شکایتیں درج ہیں جس میں ایک دو سنگین نوعیت کی بھی ہیں۔


منیا پولس میں ہونے والے اس واقعہ نے دیکھتے ہی دیکھتے منی سوٹا، لاس اینجلس، فلیڈیلفیا وغیرہ کو نسل پرستانہ تشدد میں لپیٹ لیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو قوم پرستی اور نسل پرستی کی سیاست کرنے کے لئے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور گورے امریکیوں کے حقوق کےعلمبردار بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں وہ اس موقع کو کیسے ہاتھ سے جانے دیتے اور وہ بھی اس وقت جب چند ماہ بعد امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اسی قوم پرستی کے نام پر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور یہی پہچان انہوں نے اپنی بنائی بھی ہے۔ انہوں نے جارج فلائیڈ کے حق میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کے خلا ف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کی انتظامیہ سے کہا ’اگر اس کو قابو پانے میں کوئی دشواری ہو رہی ہے تو ہم کنٹرول سنبھال لیں گے۔ ٹرمپ کا صاف مطلب ہے کہ اگر سیاہ فام فلائیڈ کے حق میں احتجاج و مظاہرہ ہوں گے اور لوٹ مار ہوگی تو پھر ان پر گولی چلائی جائے گی۔

ہمیں یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس سال کے آخر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں اور جس تعداد میں وہاں کورونا سے اموات ہوئی ہیں اور معیشت کا جو حال ہے اس کو لے کر عوام میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سخت ناراضگی، فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمیں تو خیر بہت اچھی طرح معلوم بھی ہے اور تجربہ بھی ہے کہ جب کسی بر سراقتدار جماعت کی سیاسی ساکھ گر رہی ہو اور عوام حکومت سے سوال کرنے لگیں تو اس ماحول میں قوم پرستی اور فرقہ پرستی سب سے موثر اور کامیاب ہتھیار ثابت ہوتے ہیں اور پھر امریکہ تو امریکہ ہے اور سونے پے سہگا یہ کہ اس وقت تو وہاں کی باگ ڈور بھی ٹرمپ جیسے رہنما کے ہاتھ میں ہے جو نہ صرف غلط بیانی کے ماہر ہیں بلکہ قوم پرستی کے سب سے ماہر بلے باز بھی ہیں۔ ٹرمپ ہیں توکچھ بھی ممکن ہے، تین روز پہلے انہوں نے یہ بیان دیا کہ ان کی ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات ہوئی ہے اور مودی کا ہند-چین سرحدی تنازعہ کو لے کر موڈ کافی خراب ہے۔ جبکہ ہندوستان نے اس کی وضاحت کی کہ نریندرمودی کی ٹرمپ سے گزشتہ دوماہ سے کوئی بات چیت ہی نہیں ہوئی ہے۔


خیر جو بھی ہے کورونا وبا کے بعد اور ان واقعات کے بعد ہمیں اس احساس کمتری سے باہر آ جانا چاہیے جس کی وجہ سے ہم امریکہ کو سپرپاور تسلیم کرتے ہوئے جھکنے سے نہیں تھکتے ہیں۔ ہماری قیادت چاہے امریکہ میں تقریب منعقد کر کے یہ کہے کہ اب کی بار ٹرمپ سرکار یا اپنے ملک میں ٹرمپ کے دورے کا نام ہی نمستے ٹرمپ رکھنے میں فخر محسوس کرے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم غلط طاقت کو سپرپاور تسلیم کیے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اس امریکہ کو جس کی قیادت ٹرمپ جیسے قوم پرست اور نسل پرست رہنما کر رہے ہوں اس کو ہم سپر پاور تسلیم کریں گے توہماری دانشمندی اور قیادت دونوں پرسوال کھڑے ہوں گے۔ آج کا امریکہ ہر محاذ پر ناکام ہے، چاہے وہ ایک نئے وائرس سے پیدا ہونے والی وبا کو قابو پانے کامعاملہ ہو یا پھر برسوں سے سماج میں موجود نفرت کے سسکتے ہوئے وائرس کو دوبارہ زندہ اور طاقتورکرنے کا معاملہ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔