کیوں نہ کہوں: خدارا ایسی عید پہلی اور آخری ہی ہو...سید خرم رضا
تہوار ہمیں کھل کر جینے کاموقع دیتا ہے اور پرانی کرپٹ فائلوں کودفن کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں نفرتوں کودفن کرکے محبتوں کے پرچم کو لہرانے کی ضرورت ہے
لگ ہی نہیں رہا کہ کل عید ہے اور آج چاند رات۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو مزے چاند رات کو آ تے ہیں وہ مزے عید کو آتے بھی نہیں اور آئیں بھی کیسے، ساری جان اور قووت عید کی تیاریوں یعنی چاند رات میں ہی لگ جاتی تھی۔ عید کے دن بچی کچی جان سے جیسے تیسے نماز عید ادا کرتے اور پھر محلہ میں ایک دوسرے کے گھر جاکر اور اپنے گھر میں آنے والوں کو سیوئیاں اور کھیر کھلا کر ایسے گھوڑے بیچ کر سوتے تھے کہ جیسے کوئی قلع فتح کر لیا ہو۔
اگر29 تاریخ کی چاند رات ہو پھر تو اس کا الگ ہی مزہ، چاروں طرف ہنگامہ ہی ہنگامہ،رونقیں ہی رونقیں، کسی کو درزی کے پاس سے اپنے نئے کپڑے اٹھانے ہیں، سیویوں اور شیر کے لئے دودھ لینا ہے، میوا اور میٹھائی خریدنی ہے، سارے کام کرتے ہوئے مبارکباد قبول بھی کرنی ہے اور دینی بھی ہے۔ خواتین کا تو جواب ہی نہیں۔ سچ میں خواتین کی اصل طاقت اور جذبہ کا تو اسی رات کو اندازہ ہوتا ہے، گھر والوں کے کپڑوں کو سیٹ کر کے رکھنا، پورے گھر کی صفائی کرنا، ساری رات عید کے لئے کھانے تیار کرنا اور اس میں بھی کوشش یہ کہ کھانے سب سے مختلف اور ذائقہ دار ہوں، اپنے کپڑے تیارکرنا، مہندی لگانا، بس صاحب پوری رات جاگ کر یہ سب تیاریاں کرنا۔ بچوں کی اپنی تیاریاں، وہ پہلے ہی سے یہ حساب لگا لیتے ہیں کہ کتنی عیدی ملے گی اور اسے کیسے خرچ کیا جائے گا، نوجوانوں کے اپنے معاملات جس کی وہ خاموشی سے چپکے چپکے تیاری کرتے رہتے ہیں، لیکن لاکھ چھپانے کے باوجود پتہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ ویسے 30 تاریخ کے چاند میں بھی سب چیزیں ہوتی ہیں، لیکن کم ہنگامہ کے ساتھ، کیونکہ احتیاط کے طور پر لوگ 29 تاریخ کے حساب سے زیادہ تر تیاریاں مکمل کرلیتے ہیں۔ ہاں، ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا، چاند دیکھنے کے بعد اپنے بڑوں کو سلام کرنا بھی سماج میں فرض جیسا ہی ہے۔
سونے کے بعد شام کوعزیز و اقارب اور دوستوں کے آنے کا سلسلہ یا پھر ان کے وہاں جانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ہر خاتون خانہ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی تیار کردہ ہر ڈش سرو کریں اور کیونکہ آنے والے مہمان سے تعریف سننے کی خواہش تو رہتی ہی ہے۔
ہندوستان میں دوتہوار یعنی عید اور دیوالی ایسے ہیں جنہیں خوشیوں کے لئے محاوروں میں استعمال بھی کیاجاتا ہے۔ جیسے انسان بہت خوش ہوتا ہے تو کہہ دیتا ہے اپنی تو عید ہوگئی یا اپنی تو دیوالی آج ہی ہو گئی۔ ہرتہوار کی طرح عید بھی ایک نئی قووت، نئی امنگ اور نئے جذبہ لے کر آتی ہے۔ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی حیثیت کے حساب سے اس تہوار کو کھل کر جیے، نئے کپڑے، جوتے پہنے، بچوں کو زیادہ سے زیادہ عیدی دے، دوستوں کوتحائف دے، بہترین ڈشز کا اہتمام کرے، سبھی عزیز، دوست اور رشتہ دروں سے ملے اور عید کی مبارکباد دے، تمام گلے شکوے بھول جائیں۔
صرف دو رکعت واجب نماز کی ادائگی کا نام عید نہیں ہے، عید ایک پوری فلاسفی ہے۔ ایک مہینے تک صبح سے شام تک بھوکے رہنے کے بعد خوشی کا جشن، پورے سال میں ایک بار پورے سماج کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا وقت، بچوں کا کھل کر جشن منانے کا دن، قومی اور سماجی معیشت کو فروغ دینے کا ذریعہ،غریبوں کو فطرہ دے کر ان کو بھی خوشیوں میں شریک کرنے کا احساس، گلے شکوہ دور کرنے کا موقع، سب سے گلے ملنے کا دن، جی یہ ہے عید۔ لامحدود خوبیوں سے بھرے اس تہوار کو عید کہتے ہیں جس میں معاشی، سماجی اور طبی پہلو شامل ہیں۔
افسوس صد افسوس اس سال پوری دنیا کو ایسی عید کا تجربہ ہو رہا ہے جس کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے۔ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں لاک ڈاؤن نافذ ہے، عبادت گاہیں یہاں تک کے حرم شریف میں بھی چند لوگوں کو ہی جانے کی اجازت ہے، بھیڑ سے دوری، بازاروں میں خریداروں کی کوئی رونق نہیں، گلے تو دور ہاتھ بھی ملانے سے پرہیز، رشتہ دور تو چھوڑیئے اپنے محلہ میں جاتے ہوئے بھی کئی بار سوچنے پر مجبور، ایک دوسرے سے ملتے وقت یہ ذہن میں رہتا ہے کہ سامنے والا شخص کہیں کورونا کا مریض نہ ہو، کسی دوسرے کے یہاں سے آئی ہوئی چیز کو کھاتے ہوئے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اس سے کہیں کورونا کا انفیکشن تو داخل نہیں ہو جائے گا۔ کورونا وائرس سے عید کا ہر پہلو یعنی معاشی، سماجی اور طبی پہلو بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خدارا ایسی عید پہلی اور آخری ہی ہو کیونکہ مجھے اپنے دوست بھی یاد آ رہے ہیں اور عید کی رونقیں بھی تڑپا رہی ہیں۔
ہر بحران کی تکالیف اور دشواریاں لازمی حصہ ہوتی ہیں وہیں یہ بحران کچھ پہلوؤں پرغورکرنےکا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہر مذہب کاتہوار انسان اورسماج کے لئے ضروری ہوتا ہے اور جہاں ہرتہوارکے معاشی اور طبی پہلو ہوتے ہیں وہیں سماجی پہلو بہت اہم ہوتا ہے اور وہ سماجی پہلو بھائی چارہ، آپسی محبت اور ایک دوسرے کی خوشیوں کے بانٹنے کا پہلو ہے۔ تہوار ہمیں کھل کر جینے کاموقع دیتا ہے اور پرانی کرپٹ فائلوں کودفن کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں نفرتوں کودفن کرکے محبتوں کے پرچم کو لہرانے کی ضرورت ہے، کورونا سے تو ہم جیت ہی جائیں گے نفرتوں سے جیتنا ہے جبھی اصلی عید آئے گی۔
قومی آواز کے قاریئن و سامعین کو قومی آواز کی ٹیم کی جانب سے عید کی دلی مبارکباد، اپنے ساتھ سب کا خیال رکھیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔