کسان تحریک: اسی کو تو انقلاب کہتے ہیں... تسلیم خان
اس ایک سال میں کسانوں نے سیاسی چالوں سے نمٹنا، میڈیا کو ترکی بہ ترکی جواب دینا، بحران کے وقت صبر سے حل تلاش کرنا، سب کچھ سیکھا۔
ہاتھ میں ترنگا، سر پر عزت نفس کا صافہ، پگڑی، ٹوپی، چہروں پر محنت کشی کا نور، آنکھوں میں عزائم کی مضبوطی، خدمت خلق کا جذبہ اور اقتدار کے نشہ میں ڈوبی متکبر حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے قدموں کا کارواں جب 380 دن پہلے دہلی کی دہلیز پر دستک دینے آیا تھا تو شاید ہی کسی نے اندازہ لگایا ہوگا کہ وہ جیت کر لوٹیں گے۔ لیکن وہ جیت کر ہی لوٹ رہے ہیں۔ وہ شاعر ویریندر بھاٹیا کی نظم سے لئے گئے الفاظ میں گاتے بجاتے لوٹ رہے ہیں، کسی شبد کی طرح، کسی آیت کی طرح، کسی کیرتن کی طرح۔
لیکن کیا یہ جیت صرف کسانوں کی جیت ہے، کیا یہ صرف پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں کا فتح مارچ ہے۔ یوں تو پورے ملک کے کسان تحریک میں شامل تھے لیکن انہی تین ریاستوں کے کسان جرأت مندی سے سب سے زیادہ حکومت سے لوہا لے رہے تھے۔ ان کی اس جیت نے جمہوریت کی جھولی بھر دی، انہوں نے اپنی تحریک سے جمہوریت کی ڈھیلی پڑ چکی اور کھوکھلی کی جا رہی چولوں کو مضبوط کیا ہے۔
وہ جب تشریف لا رہے تھے تو انہیں معلوم تھا کہ ان کا سامنا ایک متکبر حکومت سے ہے۔ اس کا احساس تو انہیں دہلی دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی کرا دیا گیا تھا جب نومبر کی سردی میں ان پر پانی کی توپوں سے حملہ کرایا گیا۔ انہیں روکنے کے لئے لاٹھی چارج کیا گیا، ان کی آنکھوں میں موجود مضبوط عزم کو آنسو گیس کے گولوں سے دھندلا کیا گیا لیکن جو زمین کا سینہ چیر کر اناج پیدا کر سکتے ہیں وہ بھلا ان سب سے کہاں ڈرنے والے تھے۔
حکومت نے اعلان کرا دیا تھا کہ انہیں دارالحکومت میں داخل نہ ہونے دیا جائے، اس سے دہلی سلطنت کی بنیادیں ہل سکتی ہیں، انہیں بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح چلتے ہوئے شہر سے باہر ایک باڑے نما میدان کا راستہ دکھایا گیا۔ دہلی آنے والے راستوں میں کھائیاں کھود دی گئیں، کانٹے بچھائے گئے لیکن جو موسم کی ہر شکل کو قدرت کا تحفہ سمجھ کر کھیتوں میں کام کرتے ہوں، آندھی، بارش اور لُو کے تھپیڑوں کے درمیان اپنی محنت اور پسینے سے زمین کو زرخیز بناتے ہوں، وہ کہاں ٹھہرنے والے تھے۔ وہ دہلی کے دروازوں پر ڈٹ گئے اور ثابت قدم رہے۔
ان کا مقابلہ صرف اکثریت کے زعم میں چور اقتدار سے نہیں تھا، بلکہ ان کے سامنے کارپوریٹ اور حکومت کے خطرناک گٹھ جوڑ کی بیساکھیوں پر چلنے والا میڈیا بھی تھا۔ پولیس تو تھی ہی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا مافیا بھی ان کے سامنے تھا۔ لیکن وہ کسان جو اٹل ارادوں کے ساتھ کھیتوں اور آنگنوں سے نکلے تھے، جانتے تھے کہ یہ مشکلات ان کے سامنے آئیں گی، ان کا راستہ روکا جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے دہلی کے دروازوں کو ہی شہر بنا دیا، ایک ایسا شہر جہاں سب برابر ہوں، سب کی حکومت ہو، سب کے کھانے کی ضمانت ہو، سب کے پاس سبیل ہو، لنگر ہو، سب کی خدمت ہو، سب کی صحت کا خیال رکھا جائے۔
اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھنے والی طاقت بے چین ہو اٹھی تھی، زور زبردستی ناکام ہو چکی تھی، تو پھر گالیوں، سازشوں، بدنام کرنے، دہشت گرد-پاکستانی-خالصتانی کہنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، لیکن غیر متزلزل کسان بے پرواہ تھے، انہیں معلوم تھا کہ وہ حق کے لیے لڑ رہے ہیں اور جیت صرف حق کی ہوتی ہے۔
ایک صدی پر محیط سال میں کسانوں نے کیا کیا برداشت نہیں کیا، موسم کی مار، ساتھیوں کی شہادت، ذلتیں، بدنامی... لیکن وہ جھکے نہیں۔ انہوں نے لوگوں کو ایک سبق دینا شروع کیا۔ پوری تحریک کی خوبی اور خاصیت وہ لنگر رہے، جو ہر قدم پر سنگھو، ٹیکری، غازی پور کی سرحد پر لگائے گئے تھے۔ تحریک نے سکھایا کہ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، پھر چاہے وہ تحریک میں شامل لوگ ہوں یا وہ شخص ہو جو صرف جاسوسی کے لیے وہاں پہنچا ہو۔ خدمت کے جذبے نے پوری تحریک کے حوصلے بلند کیے اور تحریک میں لگائے گئے لنگر عام طور پر لگائے جانے والے لنگروں سے کئی قدم آگے تھے۔ نہ کوئی چھوٹا، نہ کوئی بڑا، نہ کوئی ذات، نہ کوئی مذہب، جو صف میں بیٹھ گیا، اسے کھانا پیش کیا گیا اور سب نے ایک ہی قطار میں بیٹھ کر کھایا اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لیکن پوری تحریک کو بدنام کرنے کا ایک منصوبہ بند دور شروع کر دیا گیا۔ کسانوں نے میڈیا کے اس دھڑے کو وقت سے پہلے پہچان لیا، انہوں نے زرعی قوانین کی تعریف کرنے والے، کسانوں کو غنڈہ اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر مخاطب کرنے والے 'گودی میڈیا' کا کھلا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن سچے صحافیوں کو گلے لگایا، انہیں خوش آمدید کہا۔ سوشل میڈیا کی طاقت اور رسائی کو بھی کسانوں نے سمجھا اور میڈیا کے جواب میں 'ٹرالی ٹائمز' شروع کیا اور کسان مورچہ کے نام سے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر نہ صرف اپنی موجودگی درج کروائی بلکہ ہزاروں کسانوں کو اس کا استعمال کرنا بھی سکھایا۔
اس ایک سال میں کسانوں نے سیاسی چالوں سے نمٹنا، میڈیا کو ترکی بہ ترکی جواب دینا، بحران کے وقت صبر سے حل تلاش کرنا، سب کچھ سیکھا۔ انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ سیاست کے فریب اور جھانسہ سے کس طرح نمٹا جائے۔ حکومت سے 11 دور کے مذاکرات میں بھی کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر مایوس نہ ہونا بھی کسانوں نے سبق کی طرح ہی سماج کے سامنے رکھا۔
اب جب کسان واپس لوٹ رہے ہیں تو جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لیے سخت تربیت کا تجربہ رکھتے ہیں، امن کی راہ پر چلتے ہوئے ان کے پاس یہ ہنر ہے کہ وہ متکبر حکومت کو یو ٹرن لینے پر مجبور کر دیں، اور یہی ہنر کسان لوٹ کر سماج میں بھریں گے جو جمہوریت کو یاد کرتا ہے اور اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔