کھٹر حکومت نے ہریانہ کو لگایا ہزاروں کروڑ روپے کا چونا، سی اے جی کا انکشاف

گھوٹالوں پر بحث سے بچنے کی کوششوں کے تحت ہریانہ حکومت بجٹ اجلاس میں وقت پر سی اے جی رپورٹ نہیں رکھ رہی تھی۔ پھر جب رپورٹ سب کے سامنے رکھی گئی تو اس پر اسمبلی میں خوب ہنگامہ ہوا۔

منوہر لال کھٹر، تصویر آئی اے این ایس
منوہر لال کھٹر، تصویر آئی اے این ایس
user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ حکومت کے ذریعہ بجٹ اجلاس کے دوران گھپلوں-گھوٹالوں پر بحث سے بچنے کی خوب کوششیں ہوئیں، وقت پر سی اے جی رپورٹ نہ رکھنے پر سنگین سوالات بھی اٹھائے گے، اور پھر جب یہ رپورٹ اسمبلی میں رکھی گئی تو خوب ہنگامہ ہوا۔ ریاست کے خزانہ کو کئی ہزار کروڑ روپے کا چونا لگنے کی تصدیق کرتی ہوئی اس رپورٹ نے ہریانہ کی گزشتہ منوہر لال کھٹر حکومت کے طریقہ پار سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ سیلس ٹیکس سے لے کر تفریح ٹیکس تک میں ہوئی سنگین مالی بے ضابطگیوں پر سی اے جی نے مہر لگائی ہے۔

ہریانہ اسمبلی میں سال 19-2018 کے لیے پیش اپنی رپورٹ میں سی اے جی نے سنگین سوال کھڑے کیے ہیں۔ سی اے جی نے لکھا ہے کہ سیلس ٹیکس، ویٹ، ریاستی پروڈکٹ ٹیکس، اسٹامپ ٹیکس، رجسٹریشن فیس، موٹر گاڑی ٹیکس اور دیگر مدوں کے 275 یونٹوں کے ریکارڈ کی سال 19-2018 کے دوران کی گئی نمونہ جانچ نے 9836 معاملوں میں کل 2279.04 کروڑ روپے کے خزانہ کے نقصان کو سامنے رکھا ہے۔ سی اے جی نے سلسلہ وار تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران محکموں نے 5211 معاملوں کو کم قیمت کا مانا اور اس کے لیے 948.12 کروڑ وصولنے کا انتظام کیا، لیکن صرف 304 معاملوں میں 13.29 کروڑ ہی وصولے جا سکے۔


ویٹ اور سیلس ٹیکس کے مینجمنٹ میں 331.13 کروڑ سے زیادہ کی انڈر اسیسمنٹ اور دیگر خامیاں پائی گئی ہیں۔ سی اے جی نے لکھا ہے کہ 17 ڈیلروں نے 1151 کروڑ روپے کے سیلس کو چھپا دیا تھا۔ سی اے جی کا کہنا ہے کہ ٹیکس طے کرنے والے افسران نے ان ڈیلروں کی خرید و فروخت کی تصدیق ہی نہیں کی، جس کے سبب ریاست کو 60.06 کروڑ کے ٹیکس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اتنا ہی نہیں، 180.17 کروڑ روپے کے جرمانے کی بھی وصولی نہیں ہو سکی۔ سی اے جی نے کہا کہ ٹیکس طے کرنے والے افسران کی غلطی سے حکومت کو 26.23 کروڑ کے ٹیکس کا نقصان بھی ہوا جو افسران کے ذریعہ غلط شماری کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ 9 ڈیلروں کو ٹیکس کی غلط شرح دے دی گئی جس سے حکومت کو 4.82 کروڑ کا نقصان ہوا۔

سی اے جی نے اسی قسم کی تمام مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی لاپروائی اور طریقہ کار کے سبب ہوئے نقصان کی تفصیل پیش کی ہے۔ سی اے جی کے ذریعہ حکومت پر ان سنگین سوالوں کے بعد اپوزیشن نے اسمبلی میں کھٹر حکومت پر حملہ کر دیا۔ سب سے پہلے توشام سے رکن اسمبلی کرن چودھری نے حکومت سے سوال کیا کہ یہ رپورٹ 5 مارچ کو ہی آ گئی تھی اور حکومت نے قصداً اسے اسمبلی کے سامنے رکھنے میں تاخیر کیوں کی؟ کرن چودھری نے اسپیکر سے اس پر پروٹیکشن کا بھی مطالبہ کیا۔


اسمبلی اسپیکر گیان چند گپتا نے رپورٹ کو رکھنے میں تاخیر کی بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگلے بجٹ اجلاس میں اس کا دھیان رکھا جائے گا۔ گوہانا سے اسمبلی جگبیر ملک، سابق اسپیکر ڈاکٹر رگھوبیر کادیان وغیرہ اپوزیشن کے کئی اراکین اسمبلی نے سی اے جی رپورٹ کو اسمبلی میں تاخیر سے پیش کرنے پر سوال اٹھائے۔ ان اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں ظاہر ہوئے گھپلوں پر بحث سے بچنے کے لیے حکومت نے ایسا کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔