کھتولی ضمنی انتخاب براہ راست بھائی چارے کی فصل اور نفرت کی کھیتی کے درمیان مقابلہ (گراؤنڈ رپورٹ)

اتر پردیش میں مین پوری اور رامپور کے ساتھ ساتھ کھتولی میں بھی ضمنی انتخاب ہونے والا ہے، وکرم سینی کو مظفر نگر فساد معاملہ میں قصوروار قرار دیے جانے کے بعد ان کی کھتولی سے اسمبلی رکنیت ختم ہو گئی تھی۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

جانسٹھ کے تاریخی سید گھرانے کی شناخت موتی محل میں دیر شام کچھ لوگ جمع ہوئے۔ بیشتر چہروں پر ایک فکر دکھائی دے رہی ہے اور جلد ہی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ فکر انتخاب سے متعلق نہیں ہے۔ تاریخ میں کنگ میکر کہلانے والے سید برادرس کی نسل سے 67 سالہ عباس علی خان بتاتے ہیں کہ ان مایوس چہروں کی کہانی یہ ہے کہ بدھ کے روز یہاں سے 20 کلومیٹر دور مظفر نگر سڑک پر تاریخی ابو مظفر درگاہ کو سڑک چوڑی کرنے کے نام پر زمیں دوز کر دیا گیا۔ یہ درگاہ تقریباً 350 سال قدیم تھی اور اس کا تعلق مظفر نگر شہر کو بسانے والے نواب مظفر علی خان کنبہ سے تھا۔ نواب عباس علی خان کہتے ہیں کہ یہ تو وہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کارروائی سے اس انتخاب کا کوئی تعلق ہے یا نہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو خوش کر رہے ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس درگاہ کو زمیں دوز کرنے کی وجہ سے سادات باراہ میں بے حد غم کا ماحول ہے۔ یہ ہماری تاریخ کو مٹانے جیسا عمل ہے۔ ہمارے سماج کو اس سے ٹھیس پہنچی ہے۔

جانسٹھ کے ہی سید سماج کے نوجوان لیڈر دانش علی خان بتاتے ہیں کہ ان کے شیعہ طبقہ میں ایک بڑے حصے نے بی جے پی کو اپنا سمجھا تھا اور وہ اسے ووٹ بھی کرتے رہے، لیکن اب ان کا طبقہ بی جے پی سے پوری طرح دور ہو رہا ہے۔ وہ ہماری جڑوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ شیعہ طبقہ کے لوگوں میں اس درگاہ کے زمیں دوز ہونے کے بعد منفی پیغام گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات کا انتخاب پر اثر پڑتا ہے اور کھتولی ضمنی انتخاب بھی اس سے متاثر ہوگا۔ جانسٹھ رنگ محل ایک تاریخی عمارت ہے اور یہاں آزاد ہندوستان میں وائسرائے بھی آ چکے ہیں۔ جانسٹھ کھتولی اسمبلی کے تحت آنے والا دوسرا قصبہ ہے اور مظفر نگر فساد کی زمین کہا جانے والا کوال گاؤں جانسٹھ تھانہ حلقہ میں ہی ہے اور یہاں سے 4 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

کھتولی ضمنی انتخاب براہ راست بھائی چارے کی فصل اور نفرت کی کھیتی کے درمیان مقابلہ (گراؤنڈ رپورٹ)

کھتولی اسمبلی سے بی جے پی امیدوار بنائی گئی راج کمار سینی اسی کوال گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ 27 اگست 2013 کو کوال میں ہوئے تہرے قتل عام کے وقت راج کمار سینی ہی اس گاؤں کی پردھان تھی۔ راج کمار سینی کے سابق رکن اسمبلی شوہر وکرم سینی اس وقت آر ایس ایس کے اہم لیڈر تھے۔ وکرم سینی پر الزام تھا کہ انھوں نے اس مجرمانہ واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا کام کیا اور فساد کرنے کی سازش کی۔ گزشتہ مہینے قاتلانہ حملہ کرنے سمیت کئی معاملوں میں وکرم سینی کو بری کر دیا گیا، لیکن ایک معاملے میں انھیں 2 سال کی سزا ہو گئی۔ سزا کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی اسمبلی رکنیت خود ہی ختم ہو گئی۔ حالانکہ اس معاملے میں بات تب آگے بڑھی جب آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری نے اعظم خان کی رکنیت ختم ہونے کے بعد دونوں معاملوں کا موازنہ کرتے ہوئے اسمبلی سکریٹریٹ سے خط و کتابت کی۔ اس خط میں لکھا گیا کہ آخر دونوں کے ساتھ یکساں کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

مظفر نگر لوک سبھا کے تحت آنے والی کھتولی اسمبلی میں 3 لاکھ 12 ہزار ووٹرس ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ ووٹرس صرف مسلم سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ 26 ہزار سینی اور 28 ہزار گوجر ووٹرس ہیں، جب کہ 18 ہزار ووٹرس جاٹ ہیں۔ 55 ہزار دلت، 12 ہزار ٹھاکر ووٹرس بھی ہیں۔ 2012 کی حد بندی سے پہلے کھتولی اسمبلی کے تحت سسولی بھی آتا تھا۔ اس سیٹ کو جاٹوں کے وقار سے جوڑا جاتا ہے۔ 12 مرتبہ یہاں جاٹ سماج سے تعلق رکھنے والے لوگ رکن اسمبلی رہے ہیں۔ کھتولی کے اجئے جنمیجے بتاتے ہیں کہ فی الحال حالت یہ ہے کہ یہاں 2012 سے کسی اہم پارٹی نے جاٹ طبقہ سے امیدوار بھی نہیں بنایا ہے۔ سابق آئی پی ایس امیتابھ ٹھاکر کی پارٹی ’ادھیکار سینا‘ یہاں محمد یوسف کو اپنا امیدوار بنا کر لڑا رہی ہے۔ اتحاد کے ساتھ آر ایل ڈی اس بار لونی اور کھیکڑا سے رکن اسمبلی رہے گوجر سماج کے زور آور کہے جانے والے لیڈر مدن بھیا کو یہاں انتخاب لڑا رہی ہے۔ ان کے انتخاب لڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی ٹکٹ کے لیے کوشاں آر ایل ڈی ترجمان رہے ابھشیک چودھری گوجر نے بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ آر ایل ڈی امیدوار اب اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار ہے۔ آزاد سماج پارٹی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ ان کے باہری امیدوار ہونے پر ہلکی پھلکی ناراضگی ہے، لیکن یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

کھتولی ضمنی انتخاب براہ راست بھائی چارے کی فصل اور نفرت کی کھیتی کے درمیان مقابلہ (گراؤنڈ رپورٹ)

بی جے پی اس انتخاب کو ’ہمدردی کی زمین‘ پر لڑنا چاہتی ہے۔ وہ سابق رکن اسمبلی وکرم سینی کو جنگجو بتا کر انھیں سیاسی شہید بتا رہی ہے۔ بی جے پی کے تمام لیڈران 2013 کے فسادات اور کوال واقعہ کی اسٹیج سے یاد دلا رہے ہیں۔ بی جے پی کی انتخابی تشہیر کی کمان مظفر نگر کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے سنبھالی ہوئی ہے۔ دوسری طرف آر ایل ڈی کے لیڈران بھائی چارے اور کسان مفادات کے ایشوز پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی پچ پر بیٹنگ کرنے سے بچ رہے ہیں۔ مثلاً بی جے پی صرف فسادات کی یادوں کے سہارے ہے، تو آر ایل ڈی کسان مفادات، گنا کی قیمت اور کمیرا سماج کے ایک درد روزی روٹی پر بات کر رہی ہے۔ اس انتخاب میں آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری کا وقار بھی داؤ پر ہے۔ انھوں نے یہیں کھاٹ بچھا لی ہے اور وہ دو دن تک یہیں رہنے والے ہیں۔ آر ایل ڈی کے بھی تمام اراکین اسمبلی گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں۔

کھتولی سے تعلق رکھنے والے مشہور ادیب اجئے جنمیجے انتخابی عمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں میں انتخاب کو لے کر بالکل بھی جوش نہیں ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کرنے والی بات یہ ہے کہ مفاد عامہ کے ایشوز پر اب بات نہیں ہو رہی ہے۔ انتخاب بس فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور ذات پات پر مرکوز ہے۔ سماج ہی عوام کے ایشوز پر بیدار نہیں ہے۔ نتیجہ چاہے جو ہو، لیکن یہ طے ہے کہ ووٹنگ فیصد بے حد نیچے جائے گا۔ عوام اوب چکی ہے، ایک پارٹی کے امیدوار کا شوہر فساد کا قصوروار ہے، اور دوسرا امیدوار زورآور لیڈر ہے۔ عوام کو دو ’برے‘ میں سے ’کم برے‘ امیدوار کو منتخب کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب میں عوام کی دلچسپی کم دکھائی دے رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔