کھتولی ضمنی انتخاب: داؤ پر لگا ہے جینت چودھری کا وقار، بی جے پی فسادات کے زخم کریدنے میں مصروف
مظفر نگر کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے کھتولی ضمنی انتخاب کی کمان سنبھال لی ہے، وہ کھتولی اسمبلی حلقہ میں لگاتار لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔
مظفر نگر ضلع کی کھتولی اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی مغربی اتر پردیش میں زبردست انتخابی ہلچل شروع ہو گئی ہے۔ حالانکہ ضمنی انتخاب رامپور اسمبلی سیٹ پر بھی ہونے کا اعلان ہو گیا ہے، لیکن نتائج کی دلچسپی، مظفر نگر فسادات کے ماضی اور جاٹوں کی چودھراہٹ کی آپسی رسہ کشی کے سبب کھتولی اسمبلی سیٹ ’ہاٹ سیٹ‘ بن گئی ہے۔ یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی لیڈر اعظم خان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد ان کی اسمبلی سیٹ رامپور میں انتخاب ہو رہا ہے، لیکن بی جے پی کھتولی اسمبلی میں اپنی انتخابی تشہیر کے مرکز میں اعظم خان کی مخالفت کو رکھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے اس انتخاب کو اعظم وادی سوچ کے خلاف انتخاب کہہ دیا ہے۔
کھتولی اسمبلی سیٹ یہاں کے رکن اسمبلی وکرم سینی کو مظفر نگر کی ایک عدالت کے ذریعہ 2 سال کی سزا سنائے جانے کے بعد خالی ہوئی ہے۔ وکرم سینی کو یہ سزا 27 اگست 2013 میں کوال کے تہرے قتل عام کے بعد ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور لوگوں کو مشتعل کر ہنگامہ کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ وکرم سینی کھتولی سے دوسری بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اس بار انھیں رکن اسمبلی بنے ہوئے محض 8 ماہ ہی ہوئے ہیں۔ وکرم سینی کو سزا کا اعلان گزشتہ مہینے ہوا تھا لیکن ان کی اسمبلی رکنیت کے خالی ہونے کا اعلان ہونے میں ایک ماہ کا وقت لگ گیا، جب کہ اعظم خان کو سزا ہونے کے بعد 24 گھنٹے میں ہی ان کی رکنیت رد کر دی گئی۔ آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری نے اسے ایشو بناتے ہوئے سوال کیا تھا کہ آخر ایک جیسے معاملے میں دو الگ الگ اراکین اسمبلی کے لیے الگ عمل کیوں اختیار ہو رہا ہے! اس کے علاوہ راجیہ سبھا رکن جینت نے اسمبلی سکریٹریٹ اتر پردیش سے خط و کتابت بھی کی۔ وہاں سے جواب آیا کہ سزا کے اعلان کے ساتھ ان کی رکنیت از خود ختم ہو گئی تھی، اس کے بعد ہوئی ہلچل کے نتیجے میں اب کھتولی میں بھی انتخاب ہو رہا ہے۔ یہ اسمبلی سیٹ مغربی اتر پردیش کی سیاست میں اہم کردار نبھانے والی ہے۔
اس سب کے پیچھے کا معاملہ یہ بھی ہے کہ 3 لاکھ 12 ہزار ووٹروں والی کھتولی اسمبلی سیٹ جاٹوں کی بالادستی کا مرکز رہی ہے۔ یہاں 12 مرتبہ جاٹ رکن اسمبلی کو منتخب کیا جا چکا ہے۔ 2012 کی حد بندی کے بعد سسولی کے بڈھانہ اسمبلی میں آ جانے کے بعد یہاں سیاسی پارٹیوں نے جاٹ امیدوار اتارنے سے بھی دوری بنا لی ہے۔ کبھی چودھراہٹ کی پہچان رہی کھتولی اسمبلی سیٹ سے اب جاٹ بالادستی ختم ہو رہی ہے۔ 26 ہزار سینی ووٹر والی اس سیٹ پر سبھی سیاسی پارٹیوں کی پہلی پسند سینی امیدوار بن گئے ہیں۔ ہیاں وکرم سینی، راجپال سینی، شیام لال سینی، روپیندر سینی اور سدھیر سینی جیسے لیڈر سرگرم ہیں۔ موجودہ سیاسی منظرنامہ کی ایک کہانی یہ بھی ہے کہ ایک لاکھ مسلم آبادی والی اس سیٹ پر بھی کسی مسلم امیدوار پر کسی طرح کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بی جے پی کی پوری ٹیم اس اسمبلی میں مظفر نگر فسادات کے زخموں کو کریدنے پر لگ گئی ہے۔
مظفر نگر کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے کھتولی ضمنی انتخاب کی کمان سنبھال لی ہے۔ وہ کھتولی اسمبلی حلقہ میں عوام سے رابطہ کر رہے ہیں۔ سنجیو بالیان نے مظفر نگر فسادات کے زخموں کو کریدتے ہوئے سابق رکن اسمبلی وکرم سینی کو جنگجو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’2013 کے مشکل دور میں وکرم سینی سماج کے درمیان ایک جنگجو کی طرح کھڑے رہے، این ایس اے لگوا کر ایک سال جیل میں رکھنا بھی ان کے حوصلے توڑ نہیں پایا۔ آج ہم ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ مظفر نگر گاؤں کے کوال گاؤں کے رہنے والے وکرم سینی اپنے متنازعہ بیان کو لے کر بحث میں زیادہ رہے ہیں۔ کوال قتل عام کے وقت ان کی بیوی راج کمار دیوی گاؤں کی پردھان تھیں۔ اب راج کماری دیوی کو بی جے پی سے امیدوار بنائے جانے کی بھی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔
بی جے پی اس انتخاب کو مظفر نگر فسادات کی یاد دلاتے ہوئے لڑنا چاہتی ہے، کیونکہ وکرم سینی مظفر نگر فساد کے ہی معاملے میں سزا یافتہ ہیں، جب کہ آر ایل ڈی نے کسانوں کے ایشوز پر بی جے پی کو پٹخنی دینے کی تیاری کی ہے۔ بی جے پی لیڈر یہاں تشہیر کر رہے ہیں کہ آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری نے اعظم خان کی اسمبلی رکنیت رد ہونے کے بعد وکرم سینی کی اسمبلی رکنیت رد کرانے کے لیے خط و کتابت کرتے ہوئے اضافی کوشش کی، جس کے سبب وکرم سینی کی اسمبلی رکنیت چلی گئی۔ آر ایل ڈی گنا کی قیمت بڑھانے اور رقم ادائیگی کے علاوہ کسانوں کے زمینی ایشوز کے ساتھ بھائی چارے کی زمین پر انتخاب لڑنا چاہتی ہے۔ انہی ایشوز کے ساتھ آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری یہاں روڈ شو اور عوامی جلسہ کر رہے ہیں۔ 13 نومبر تک وہ لگاتار علاقے میں رہ کر آر ایل ڈی کے حق میں انتخاب کا رخ کرنے کا کام کریں گے۔ اس دوران وہ جاٹ، سینی اور گوجر اکثریتی علاقے میں عوامی جلسہ کر رہے ہیں۔
آر ایل ڈی کے قومی کنوینر سدھیر بھارتیہ کہتے ہیں کہ بی جے پی لیڈروں کو مظفر نگر فسادات سے ہٹ کر کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے۔ جینت چودھری جی نے آئینی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سوال کھڑا کیا جو کہ بے حد ہی مناسب تھا۔ ایک ہی جیسے دو معاملوں میں الگ الگ قانون کیسے ہو سکتے ہیں۔ ہم یہ انتخاب علاقے کی ترقی، کسانوں کے مفادات اور بھائی چارے کے ایشوز پر لڑ رہے ہیں۔ بی جے پی اپنے ترقیاتی کاموں کا شمار کرانے کی جگہ فسادات پر بات کرتی ہے۔ علاقے کے نوجوان اب لڑائی جھگڑوں سے اوب کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہم ترقی چاہتے ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری عروج پر ہے، مہنگائی بہت ہے۔ گنّے کی قیمت نہیں بڑھنے سے کسان پریشان ہیں۔ گنا کی رقم کی ادائیگی رکی ہوئی ہے۔ بچوں کی اسکول فیس نہیں جا پا رہی ہے۔ ہم نوجوانوں کے ذہن میں پازیٹوٹی بھرنا چاہتے ہیں۔
کھتولی باشندہ ادیب اجئے جنمیجے کہتے ہیں کہ کھتولی گنا اکثریتی علاقہ ہے اور دو بڑی شگر مل ہیں جن میں سے ایک منصورپور میں ہے۔ جینت چودھری یہاں بھی جلسہ کر رہے ہیں، یہاں سبھی کسانوں کی اصل زراعت گنا ہی ہے۔ گنا کی قیمت میں اضافہ اور ادائیگی یہاں ہمیشہ سے ہی اصل ایشو رہتا ہے۔ چونکہ وکرم سینی اپنے رویہ اور زبان کو لے کر لگاتار ناپسند کیے جا رہے تھے اس لیے ان کی اسمبلی رکنیت ختم ہونا یہاں اپوزیشن میں جوش کی وجہ ہے۔ گٹھ بندھن کے تحت اپوزیشن ایک ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ جینت چودھری ایک سنجیدہ سیاسی لیڈر بن رہے ہیں۔ یقینی طور پر کھتولی کا انتخاب ان کے وقار کے لیے اہم ہے اور بی جے پی مغربی اتر پردیش میں ان کا اثر پیدا نہیں ہونے دینا چاہتی، اس لیے یہ انتخاب بہت دلچسپ ہو گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔