کروڑوں روپے کے سودے میں پھنسے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ، واٹس ایپ چیٹ سے انکشاف
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پی. وجین ایک بڑے گھوٹالے میں پھنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ واٹس ایپ چیٹ سے سامنے آیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اس سودے کی پہلے سے جانکاری تھی، حالانکہ وہ اس سے انکار کرتے رہے ہیں۔
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین کو امریکی کمپنی کے ساتھ 5 ہزار کروڑ روپے کے فشنگ کانٹریکٹ کی جانکاری تھی۔ اس انکشاف سے عین انتخابات کے درمیان بایاں محاذ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ دستاویزوں سے سامنے آیا ہے کہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین کومعاہدہ پر دستخط سے پہلے ہی اس بات کی جانکاری تھی کہ امریکہ کی فشنگ کمپنی ای اے سی سی کو فشنگ کا 5 ہزار کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ دفتر اس الزام کو پہلے ہی خارج کر چکا ہے۔ ساتھ ہی اس کمپنی کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین سے وزیر اعلیٰ دفتر انکار کرتا رہا ہے۔ اس سال فروری ماہ میں جب اس ٹھیکے کو لے کر تنازعہ کھڑا ہوا تو وزیر اعلیٰ پی وجین نے کہا تھا کہ افسران نے انھیں اس سودے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی تھی۔
اس سلسلے میں پہلا مبینہ ثبوت کیرالہ شپنگ اِن لینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر این پارسناتھ و وزیر اعلیٰ کے ایڈیشنل پرائیویٹ سکریٹری دنیش بھاسکر کے درمیان ہوا واٹس ایپ چیٹ کے اسکرین شاٹس ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ پارسناتھ نے بھاسکر کو پہلی فروری کو سودے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس سودے پر ایک دن بعد یعنی 2 فروری کو دستخط ہوئے تھے۔
سودے پر دستخط ہونے کے بعد بھاسکر نے پارسناتھ کو مبارکباد کے پیغامات بھی بھیجے تھے۔ پارسناتھ نے اسی دوران اس وتق کے ایڈیشنل چیف سکریٹری ٹی کے جوس کو بھی پیغام بھیجا تھا۔ ٹی کے جوس اس وقت اِن لینڈ نیویگیشن محکمہ کے سربراہ تھے اور وزیر اعلیٰ نے اس ایشو کے طول پکڑنے پر ٹی کے جوس کو ہی معاملے کی جانچ کرنے کو کہا تھا۔
جب سے حزب مخالف لیڈر رمیش چنیتھالا اس سودے میں ہوئی گڑبڑی کو سامنے لائے ہیں، تب سے ہی وزیر اعلیٰ پی وجین اس معاملے سے ہاتھ جھاڑتے رہے ہیں۔ ان کے دفتر نے کہا تھا کہ نہ تو وزیر اعلیٰ اور نہ ہی ان کے دفتر کو اس بارے میں کوئی جانکاری تھی۔ حالانکہ عوامی دباؤ کے بعد کیرالہ حکومت نے 22 فروری کو اس سودے کو رد کر دیا تھا۔ لیکن اس سودے کا سارا قصور پارسناتھ پر ڈالا جاتا رہا۔
ان دستاویزوں سے انکشاف ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو سودے کی پوری جانکاری تھی۔ غور طلب ہے کہ یہ سودا بایاں محاذ حکومت کے 2016 کے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ حکومت بننے پر مقامی ماہی گیروں کے مفادات کا دھیان رکھا جائے گا۔ اسی طرح 2016 میں فشریز پالیسی لائی گئی جس میں کہا گیا کہ ماہی گیروں کو ’ڈیپ سی فشنگ ویسل‘ کے مالکانہ حق ملیں گے۔
اس معاملے کو جب شروع میں رمیش چنیتھالا نے اٹھایا، تو ماہی پروری وزیر جے مرسی کٹی اما نے اسے خارج کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کوئی سودا نہیں ہوا ہے۔ اس پر چنیتھالا نے ای ایم سی سی پریسیڈنٹ شیجو ورگیز اور دیگر افسران کے ساتھ اکتوبر میں بات چیت کرتے ہوئے مرسی کٹی کی تصویر جاری کی تھی۔ چنیتھالا نے فروری میں کہا تھا کہ ’’کمپنی کے افسران نے میڈیا کو بتایا ہے کہ مرسی کٹی کے ساتھ ان کی بات چیت نیویارک میں بھی ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کی تصویر بھی جلد ہی سامنے آ جائے گی۔‘‘
ان تصویروں کے سامنے آنے کے بعد مرسی کٹی اپنے بیان سے پلٹ گئی تھیں اور مانا تھا کہں نے کیرالہ میں ای ایم سی سی افسران کے ساتھ ملاقات کی تھی، لیکن ای ایم سی سی افسران ان سے نیویارک میں نہیں ملے تھے۔ شیجو ورگیز نے اس سلسلے میں وزیر برائے صنعت ای پی جیا راجن کو بھی بتایا تھا کہ ان کی مرسی کٹی اما سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس تنازعہ کے سامنے آنے کے بعد کیرالہ کا ساحلی علاقہ سیاسی سرگوشیوں سے گونج رہا ہے۔ اس علاقے میں 40 اسمبلی سیٹیں ہیں اور کیرالہ اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے یہاں پر جیتنا ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ ان دستاویزوں کے سامنے آنے کے بعد پی وجین نے اسے سازش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک بڑا افسر اس کے پیچھے ہے اور جانچ میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
کانگریس جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ نیویارک میں قونصلیٹ جنرل نے اس امریکی کمپنی کی تفصیلی جانچ کی اور اس کے بارے میں ساری جانکاریاں ایل ڈی ایف حکومت کو 21 اکتوبر 2019 کو بھیج دی تھیں۔ اس بارے میں لوک سبھا میں 17 مارچ 2021 کو بھی بتایا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔