کشمیر: فون خدمات بحال، لیکن موبائل انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے لوگ پریشان

قرنطینہ مراکز میں زیر نگرانی لوگوں کا کہنا ہے کہ موبائل انٹرنیٹ خدمات پر پابندی سے کوارنٹائن سینٹر ہمارے لئے قید خانے جیسے بن گئے ہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ خدمات پر گزشتہ چار دنوں سے ایک بار پھر عائد پابندی سے جہاں قرنطینہ مرکز میں زیر نگرانی سینکڑوں افراد کا جینا مزید دو بھر ہوا ہے وہیں پیشہ ور افراد اور طلبا کی مشکلات بھی مزید بڑھ گئی ہیں۔ اگرچہ ضلع پلوامہ کو چھوڑ کر وادی کے دیگر 9 اضلاع میں فون خدمات کو جمعہ کی شام بحال کر دی گئی لیکن ایس ایم ایس سہولیت منقطع ہی رکھی گئی ہے۔

بتادیں کہ حکومت نے جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے بیگ پورہ میں حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو کی 6 مئی کی صبح اپنے ایک ساتھی سمیت ہلاکت کے ساتھ وادی میں پہلے موبائل انٹرنیٹ خدمات اور اس کے فوراً بعد فون خدمات بند کردی تھیں، تاہم سرکاری مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ ( بی ایس این ایل) کی فون اور لینڈ لائن خدمات منقطع نہیں کی گئی تھیں۔


ادھر صارفین کا کہنا ہے کہ اگرچہ فون خدمات بحال ہوئی ہیں لیکن ایس ایم ایس سہولیت کی لگاتار معطلی کی وجہ سے وہ مخلتف النوع مشکلات کا سامنا ہے۔ ایس ایم ایس سہولیت بند رہنے کی وجہ سے لوگ آن لائن ادائیگی نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ موبائل فون پر او ٹی پی نمبر نہیں آتا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں زیر نگرانی لوگوں کا کہنا ہے کہ موبائل انٹرنیٹ خدمات پر پابندی سے کوارنٹائن سینٹر ہمارے لئے قید خانے بن گئے ہیں۔

وسطی ضلع بڈگام کے ایک کوارنٹائن سینٹر میں زیر نگرانی ایک شخص نے کہا کہ 'اگرچہ ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات ہی یہاں بحال تھیں لیکن اس کی وساطت سے نہ صرف کورونا وائرس کے بارے میں مختلف النوع جانکاریوں اور قرنطینہ میں رہنے کے بارے میں معلومات تک ہمیں رسائی تھی، بلکہ اس کے علاوہ بھی ہم یوٹیوب پر تفریحی ویڈیوز یا بڑے دانشوروں اور علما کے خطبات سن کر وقت گزاری کرتے تھے لیکن جب سے انٹرنیٹ بند ہے تب سے یہ سینٹر ہمیں کسی قید خانے سے کم نہیں لگتا ہے'۔


موبائل انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندی سے ان پیشہ ور لوگوں اور طلبا کے مشکلات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے جن کی براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس تک رسائی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے ایک طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے باہر قدم رکھنا امر محال ہے دوسری طرف موبائل انٹرنیٹ پر ایک بار پھر پابندی عائد ہے جس سے ہمارے امور ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔

ایک طالب علم نے کہا کہ گرچہ ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات ہی چل رہی تھیں لیکن میں یوٹیوب پر لیکچر سنتا تھا اب جب کلی طور پر بند کردیا گیا ہے تو میری پڑھائی بھی بند ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہماری تعلیم کو متاثر نہ ہونے کے لئے بڑی بڑی پالیسیاں مرتب کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف آج کے حالات میں انٹرنیٹ جیسی اہم ترین ضرورت سے ہمیں محروم رکھا جارہا ہے۔ ایک اور طالب علم نے کہا کہ یہاں معمولی نوعیت کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتے ہی انٹرنیٹ اور فون خدمات جن پر موجودہ حالات میں لوگوں بالخصوص ایک طالب علم کا زیادہ ہی انحصار ہے، کو پہلی کیجولٹی بن جاتی ہیں جس کا خمیازہ طلبا کو نا قابل تلافی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سال گزشتہ کے ماہ اگست میں جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کی منسوخی اور ریاست کیو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے بعد وادی میں تمام تر مواصلاتی خدمات پر قریب پانچ ماہ تک پابندی عائد کی گئی تھیں جنہیں بعد ازاں بتدریج بحال کیا گیا تھا تاہم فور جی موبائل انٹرنیٹ خدمات پر پابندی ہنوز عائد تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔