کرناٹک انتخاب: شگاؤں میں سہ رخی مقابلہ نے مشکل کی وزیر اعلیٰ بومئی کی راہ، کانگریس کے داؤ سے بی جے پی پریشان!
بومئی کے پاس واحد فائدے والی بات یہ ہے کہ وہ اس قدر بڑے پیمانے پر انتخابی تشہیر میں شامل رہے کہ اگر بی جے پی برسراقتدار ہوتی ہے تو وہ پھر سے وزیر اعلیٰ بنیں گے۔
کرناٹک اسمبلی انتخاب میں وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر بسوراج بومئی اپنے قلعہ شگاؤں میں سہ رخی مقابلے میں پھنس گئے ہیں۔ شگاؤں سے لگاتار تین مرتبہ جیت چکے بومئی سے سیٹ ہتھیانے کے لیے کانگریس نے پٹھان یاسر احمد خان کو میدان میں اتارا ہے۔ وہیں کاروباری سے لیڈر بنے پنچم سالی لنگایت طبقہ کے ششی دھر یلیگر جے ڈی ایس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
یلیگر جنتا دل کے امیدوار سے زیادہ انتخابی حلقہ میں ایک اہم چہرہ ہیں اور پنچم سالی لنگایت طبقہ میں ان کی گہری جڑیں ہیں، جو ایک طاقتور لنگایت گروپ ہے۔ وہیں علاقہ میں تقریباً 50 ہزار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے پھر سے انتخابی حلقہ میں ایک مسلم کو میدان میں اتار کر بومئی کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔
کانگریس نے گزشتہ انتخاب میں سید عظیم پیر قادری کو میدان میں اتارا تھا اور وہ بومئی سے ہار گئے تھے۔ اس لیے اب چہرہ بدل دیا گیا ہے اور پٹھان یاسر احمد خان کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ کانگریس امید کر رہی ہے کہ لنگایت ووٹ بومئی اور یلیگر کے درمیان تقسیم ہو جائیں گے اور مسلم کانگریس امیدوار کے لیے بڑے پیمانے پر ووٹ کریں گے۔ کانگریس لیڈروں کا ماننا ہے کہ مسلم ووٹ پوری طرح سے پارٹی کو مل رہے ہیں اور لنگایت ووٹ تقسیم ہو رہے ہیں۔
ایسے ماحول میں جہاں بومئی دیگر انتخابی حلقوں کا دورہ کر رہے ہیں، ان کی بیوی چینمّا اور بیٹے بھرت بھی ان کی طرف سے تشہیر کرتے نظر آئے ہیں۔ کانگریس کے ساتھ خاموش حمایت کے الزامات پر بھرت نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، یہ ایک مضحکہ خیز سوال ہے۔ ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور میرے والد وزیر اعلیٰ رہنے سے پہلے بھی انتخابی حلقہ میں بہت مقبول رہے ہیں اور وہ اب بھی مقامی لوگوں کے درمیان مقبول ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بڑے فرق سے آسانی سے سیٹ جیت رہے ہیں۔
2018 کے اسمبلی انتخابات میں بومئی نے سید عظیم پیر قادری کو 8765 ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ بومئی کو 83368 ووٹ ملے، اور قادری کو 74603 ووٹ ملے۔ جے ڈی ایس کے امیدوار اشوک بیوینامار کو 1353 ووٹ ملے۔ آزاد امیدوار سومنا کو 7203 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس انتخاب میں کانگریس کے پاس پٹھان یاسر احمد خان کی شکل میں ایک نیا چہرہ ہے، جبکہ جے ڈی ایس امیدوار ششی دھر یلیگر انتخابی حلقہ میں بہت مقبول ہیں۔
بومئی کے پاس واحد فائدے والی بات یہ ہے کہ وہ اس قدر بڑے پیمانے پر انتخابی تشہیر میں شامل رہے کہ اگر بی جے پی برسراقتدار ہوتی ہے تو وہ پھر سے وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ اگر ایسا ووٹرس کے ساتھ دکھائی دیتا ہے تو بومئی اچھی اکثریت سے جیتیں گے۔ حالانکہ مسلم ووٹ بینک اور لنگایت ووٹوں میں تقسیم بومئی کے لیے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
جگدیش شیٹار کے ارد گرد کانگریس نے جو ماحول تیار کیا ہے، بومئی خیمے کے لیے فکر انگیز ہے۔ لنگایت طبقہ کے درمیان ایک جذبہ ہے کہ بومئی نے شیٹار کو پارٹی سے باہر کرنے کے لیے بی ایل سنتوش اور پرہلاد جوشی سمیت بی جے پی میں برہمن لابی کے لیے کردار نبھایا ہے۔ اگر یہ لوگ بی جے پی سے پیچھے ہٹتے ہیں تو بومئی کے لیے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔