کرناٹک: بی جے پی رکن اسمبلی نے وزیر اعلیٰ سے مدرسوں پر پابندی عائد کرنے کا کیا مطالبہ

بی جے پی رکن اسمبلی رینوکاچاریہ کا کہنا ہے کہ ’’کیا ایسے اسکول نہیں ہیں جہاں سبھی مذاہب کے طالب علم پڑھ رہے ہیں؟ مدرسہ ملک مخالف مواد پڑھاتے ہیں، اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔‘‘

رینوکاچاریہ، تصویر آئی اے این ایس
رینوکاچاریہ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

کرناٹک میں ایک بعد ایک نئے تنازعے سامنے آ رہے ہیں۔ حجاب تنازعہ کے بعد مندروں کے میلوں میں مسلم دکانداروں پر پابندی لگائی گئی، اور اب ریاست میں مدرسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ بی جے پی رکن اسمبلی رینوکاچاریہ نے وزیر اعلیٰ بسوراج ایس بومئی اور وزیر تعلیم بی سی ناگیش سے کیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مدارس میں ملک مخالف اسباق پڑھائے جاتے ہیں اس لیے ان پر پابندی لگنی چاہیے۔

رینوکاچاریہ کا کہنا ہے کہ ’’کیا ایسے اسکول نہیں ہیں جہاں سبھی مذاہب کے طالب علم پڑھ رہے ہیں؟ مدرسہ ملک مخالف مواد پڑھاتے ہیں، اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ میں وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مدارس پر پابندی لگائی جائے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ حجاب معاملے پر کچھ ملک مخالف تنظیموں نے کرناٹک بند کی اپیل کی ہے، کیا حکومت اسے برداشت کر سکتی ہے؟ یہ پاکستان ہے، بنگلہ دیش ہے یا اسلامی ملک؟ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ رینوکاچاریہ نے اس بات پر حیرت بھی ظاہر کی کہ ملک مخالف تنظیموں کے کرناٹک بند کا کانگریس لیڈروں نے ایوان میں دفاع کیا ہے۔


واضح رہے کہ رینوکاچاریہ بی جے پی رکن اسمبلی ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ بومئی کے سیاسی سکریٹری بھی ہیں۔ اس سے پہلے بھی رینوکاچاریہ متنازعہ بیان دیتے رہے ہیں۔ ایک بار انھوں نے پرینکا گاندھی کے ایک ٹوئٹ کے جواب میں کہا تھا کہ کانگریس جنرل سکریٹری کا اپنے بیان میں ’بکنی‘ جیسے لفظ کا استعمال کرنا ایک نچلی سطح کا بیان ہے۔ کالج میں پڑھتے وقت بچوں کو پوری طرح سے کپڑے پہنائے جانے چاہئیں۔ آج خواتین کے کپڑوں کی وجہ سے عصمت دریاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ مردوں کو اکسایا جاتا ہے۔ یہی درست نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے۔

دراصل کانگریس جنرل سکریٹری نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ چاہے وہ بکنی ہو، گھونگھٹ ہو، جینس کی ایک جوڑی ہو یا حجاب، یہ طے کرنا ایک خاتون کا حق ہے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہیں۔ خواتین کو پریشان کرنا بند کرو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔