’جشن ریختہ سماج میں موجود وائرس سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت ہے‘
جشن ریختہ میں اردو سمجھنے والے، اردو سے محبت کرنے والے، اردو پہننے والے، اردو کی خوشبو سونگھنے والے موجود تھے اور ان کا تعلق ہندوستان کے ہر طبقہ اور ہر مذہب سے تھا۔
تقریباً پانچ سو میٹر کی لمبی لائن اور موبائل پر پاس دکھانے کے بعد جب دہلی کے انڈیا گیٹ پر واقع دھیان چند ہاکی اسٹیڈئم میں منائے جا رہے اردو کے تہوار ’جشن ریختہ میں داخل ہوا تو بھیڑ کی اس فضا میں امید کی کرن نظر آئی۔ اس امید نے داخلہ میں لوگوں کے جم غفیر کی وجہ سے آنے والی تمام دشواریوں کو ایسے ختم کر دیا، جیسے سورج کی کرن کہرے کو ختم کر دیتی ہے۔
اردو کی کسی تقریب کا ایسا تصور ذہن میں آتا ہی نہیں۔ یہاں کے میزبان اور مہمان دونوں ہی عام اردو کی تقاریب والے نظر نہیں آتے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جشن ریختہ صحیح معنوں میں اردو اور اردو کے چاہنے والوں کا جشن ہے۔ وبا کی وجہ سے لوگ تقریب اور جشن سے محروم ہو گئے تھے ایسے میں جشن ریختہ نے لوگوں کی اس محرومی کو نہ صرف دور کیا بلکہ انہیں جنیے کا موقع اور مقصد فراہم کیا۔
جس بڑی تعداد میں لوگوں نے جشن ریختہ میں شرکت کی وہ تو اعداد و شمار کے لئے ہے لیکن جس طبقہ نے اس میں شرکت کی اس نے یہ واضح پیغام دے دیا کہ ہندوستان میں محرومی اور مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور فرقہ وارانہ سیاسی طاقتیں چاہے کچھ بھی کرتی رہیں ان کی شکست اس حوصلے کے سامنے لازمی ہے۔ جشن ریختہ میں اردو سمجھنے والے، اردو سے محبت کرنے والے، اردو پہننے والے، اردو کی خوشبو سونگھنے والے موجود تھے اور ان کا تعلق ہندوستان کے ہر طبقہ اور ہر مذہب سے تھا۔
موجود لوگوں میں 90 فیصد نوجوان تھے اور انہوں نے ہر طرح کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ جشن ریختہ میں وہ لڑکیاں بھی موجود تھیں جنہوں نے پوری طرح خود کو برقع میں ڈھانپ رکھا تھا اور وہ لڑکیاں بھی تھیں جنہوں نے ضرورت بھر کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا، مگر کوئی کسی سے نفرت نہیں کر رہا تھا۔ کسی کے چہرے پر یہ تاثر نظر نہیں آیا کہ یہ دقیانوسی یہاں کیا کر رہے ہیں یا یہ ماڈرن لوگوں کو اردو سے کیا لینا دینا۔ ہر کوئی اردو کو اپنے انداز سے جی رہا تھا اور یہی ہندوستانی تہذیب ہے۔
داخلہ کے دائیں جانب ہی بہت خوبصورت شامیانے سے ڈھکا ہو ایک اسٹیج بنا ہوا تھا اور اس کا نام رکھا گیا تھا’ دیار اظہار‘ جس میں نوجوان ہر طرح کا اظہار کر رہے تھے۔ داخلہ پر جہاں ریختہ کے پروگرام کی تفصیل رکھی ہوئی تھی وہیں الگ الگ ادارے کتابیں فرخت کر رہے تھے اور سامنے بند اسٹیڈیم کی گولائی میں دیوار تھی۔ اس کے بعد اسٹیڈئم کی گول دیوار کے ساتھ گزرتے ہوئے جہاں بائیں جانب ایک شامیانے کے اندر ’محفل خانہ‘ تھا۔ اس میں جہاں مشاعرہ، قوالی، نغمہ کی باتیں، کمار وشواس کی سیاسی اور ادبی گفتگو وہیں نصیر الدین شاہ اور ان کی اہلیہ رتنا پاٹھک شاہ کے ساتھ سیف محمود کی دل دھڑکنے کے سبب پر ہر طرح کی بات چیت۔
اس کے دائیں جانب’ سخن زار‘ بنا ہوا تھا جس میں جاوید اختر کا سفر، مزاحیہ مشاعرہ اور مظفر علی سے شبانہ اعظمی کی مظفر علی سے ان کی کتاب پر گفتگو اور نوک جھونک۔ بیچ میں بہت بڑی جگہ میں کتابوں اور کھانوں کے اسٹال اور آخر میں بند جگہ پر’ بزم خیال‘ نامی شعبہ تھا جہاں پر اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر اور دارا شکوہ پر گفتگو۔
بہرحال ہر شامیانہ کے اندر خوشیاں اور بہت گہری معلومات کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ لوگ اردو والوں کی باتیں سن کر خوش تھے اور ہر شخص اپنی مرضی کا کھانا کھا رہا تھا اور کسی کو کسی کے کھانے کی جانب دیکھنے کی اس لئے فرصت نہیں تھی کیونکہ وہ اپنے اس قیمتی لمحہ کو مکمل طور ہر جینا چاہتے تھے۔ ہندی کے کوی کمار وشواس جنہوں نے بہت سی باتیں کی اور سیاست دانوں پر خوب طنز کیا لیکن انہوں نے ریختہ کے بارے میں ایک بات کہی کہ جشن ریختہ سماج میں موجود وائرس سے لڑنے کے لئے قوت مدافعت کرنے کا کام کر رہا ہے۔
جاوید اختر، ظفر آغا، مظفر علی، فرحت احساس وغیرہ کو سننے کے بعد اردو کی عزت میں جو اضافہ ہوتا ہے وہی اضافہ نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ کمار وشواس نے کہا کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے اور انہوں نے اردو سے اپنے تعلق کو اپنے ہی انداز میں بیان کیا کہ محبوبہ کو پٹانے کے لئے جو شعر لکھے تھے وہ اردو کے ہی تو تھے۔ لوگ خامیاں نکال سکتے ہیں لیکن جشن ریختہ ایک امید کی کرن ہے جو صرف اردو کے لئے نہیں بلکہ موجودہ ہندوستان کے لئے ہے۔ ظفر آغا نے صحیح کہا ہے کہ اردو زندگی کی علامت ہے اور انصاف کی زبان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔