جے پور سلسلہ وار بم دھماکہ: 12 سال انتظار کے بعد بے گناہ شہباز کی رہائی کا راستہ صاف

جمعیۃ علماء ہند کی قانونی مدد کے نتیجے میں شہباز 7 مقدمات میں بری اور2 میں رِہا کیے گئے۔ بعد ازاں مولانا ارشد مدنی نے سوال کیا کہ شہباز نے بے گناہی کے جو ماہ وسال جیل میں گزارے اس کی تلافی کون کرے گا؟

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

پریس ریلیز

13مئی 2008 کو راجستھان کے ثقافتی شہر جے پور میں رو نما ہونے والے سلسلہ واربم دھماکہ معاملے میں ملزم بنائے گئے لکھنئو کے ایک نوجوان کو گزشتہ کل جے پور ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کیے جانے کے احکامات جاری کیے۔ ملزم شہباز احمد کو اب تک 7 مقدمات سے بری کیا جاچکا ہے، جبکہ اسے 2 مقدمات میں ضمانت حاصل ہوچکی ہے، ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ سے ضمانت پر رہا کیے جانے کے احکامات جاری ہونے کے بعد گزشتہ روز جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس پنکج بھنڈاری نے ملزم کو ضمانت پر رہا کیے جانے کے احکامات جاری کیے، جے پور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ملزم کی 12 سالوں کے طویل عرصہ کے بعد جیل سے رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔

یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔ انہوں نے مقدمہ کے تعلق سے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ملزم پر الزام تھا کہ وہ ممنوع دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کا رکن ہے اور اس نے دیگر چار ملزمین کے ساتھ مل کر سلسلہ وار بم دھماکے کیے تھے۔ ان بم دھماکوں میں 80 لوگوں کی موت جبکہ 176 لوگ زخمی ہوئے تھے۔


گزشتہ برس نچلی عدالت نے ایک جانب جہاں چار ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا وہیں ملزم شہباز احمد کو باعزت بری کردیا تھا، عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد جے پور پولیس نے ملزم شہباز کو 12 سال پرانے ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کرلیا تا کہ اس کی جیل سے رہائی نہ ہوسکے۔ملزم شہباز احمد کی ضمانت عرضداشت پر بحث کے دوران ایڈوکیٹ نشانت ویاس اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جے پور پولیس ملزم کو پریشان کرنے کے لئے اسے ایک ایسے مقدمہ میں گرفتار کرلیا جو گزشتہ 12 سالوں سے بند تھا، جبکہ اس دوران ملزم انہیں دستیاب تھا اور وہ اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے مقدمہ چلا سکتے تھے۔

وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اسے ان الزامات سے گزشتہ سال نچلی عدالت نے بری کردیا تھا، لہذا اب ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور اس پر ایک ہی الزام کے تحت دو مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو ناصرف 12 سالوں تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا بلکہ دوران قید اسے جسمانی طور پر شدید زدوکوب بھی کیا گیا، جس کی شکایت ملزم نے سپریم کورٹ سے کی تھی، جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا نے سبکدوش آئی اے ایس افسر سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے جس کی تحقیقات جاری ہے۔


جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس بھنڈاری نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیے جانے کے احکامات جاری کیے جبکہ وکیل استغاثہ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر بم دھماکے انجام دینے کا سنگین الزام ہے لہذا اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس پورے معاملے پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ہے، اس میں ایک بے گناہ کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے بارہ سال تک جیل کے اندر رکھا گیا اور جب وہ دہشت گردی کے سات مقدمات سے باعزت بری ہوا تو جے پور پولیس نے اسے ایک دوسرے بہت پرانے معاملے میں ملوث کرکے بدستور جیل میں رکھنے کی سازش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے کام کاج کے طور طریقوں پر نہ صرف سنگین سوال کھڑے کرتا ہے بلکہ ان کی گھناؤنی ذہنیت اور خطرناک جانبدارانہ رویہ کی قلعی بھی کھول دیتا ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ دہشت گردی سے جڑے معاملوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس اور تفتیش کاروں کی سست روی کی وجہ سے عدالتوں کو فیصلے صادر کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ جس کا خمیازہ بے گناہ ملزمین کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ شہباز کا معاملہ اس کی تازہ بدترین مثال ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ شہباز نے بے گناہی کے جو قیمتی بارہ سال جیل میں گزارے اس کی تلافی کون کرے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ملک کا قانون کسی بااختیار شخص کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بے گناہ انسان سے اس کے بنیادی حقوق چھین لے اور قانون کی آڑ لے کر اس کی زندگی کو تباہ و برباد کر ڈالے؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ قانون نافذ کرنے اور اس پر عمل کرنے والی ایجنسیوں کے تعصب اور امتیازی رویے کے سبب ایسا ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی جوابدہی طے نہیں ہے انہیں اس بات کی کھلی آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ جس کی چاہیں زندگی برباد کر دیں، ان سے کوئی باز پرس نہیں کرے گا۔

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ سات مقدمات میں شہباز کا باعزت بری ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے آسیب کو مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے زندہ کیا گیا تھا۔ اور جب یہ افسوسناک سلسلہ ملک گیر پیمانے پر شروع کیا گیا تو کچھ ایسا ماحول قائم کر دیا گیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لب کشائی کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا۔ مولانا مدنی نے میڈیا کے رول پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردی کے الزام میں ہونے والی گرفتاریوں کی خوب نمک مرچ لگا کر تشہیر کرتا ہے لیکن جب عدالت سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کی سخت مخالف ہے اس لئے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کے لئے دہشت گردی کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بے دریغ استعمال کیا گیا۔


مولانا مدنی نے اس بات پر بھی شدید دکھ کا اظہار کیا کہ ایک ملزم پر ایک ہی الزام کے تحت لاتعداد مقدمے قائم کر دیئے جاتے ہیں، چنانچہ وہ اگرایک مقدمے میں بری بھی ہوجاتا ہے تو اسے جیل سے رہائی نہیں مل پاتی، مقدمے بدستور چلتے رہتے ہیں، اس طرح مذکورہ شخص کے قیمتی ماہ وسال قانونی لڑائی لڑنے میں ضائع ہوجاتے ہیں اور جب وہ ان تمام جھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہوکر جیل سے باہر آتا ہے اس کی دنیا تاریک ہوچکی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ظلم نہیں ظلم کی انتہا ہے، اس لئے اب عدالتی نظام میں تیزی لانا وقت کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کی جوابدہی بھی طے ہونا چاہیے، اس لئے کہ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ایک بے گناہ شخص اگر بری ہوکر جیل سے باہر آبھی گیا تو کسی دوسرے بے گناہ کو جیل میں اسی طرح ڈالا جاتا رہے گا اور یہ مذموم سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔