حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ، جن کی زندگی جدو جہد و مشکلات کی علامت تھی
اسماعیل ہنیہ اپنی سفارتی و سیاسی زندگی میں ایک عملی و مدبر سیاستدان اور سفارت کار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال جلاوطنی اور مہاجرت میں گذرے۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو بدھ (31 جولائی) کی صبح ایرانی دارالحکومت میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے، جہاں ایک فضائی حملے میں وہ جاں بحق ہوگئے۔ ان موت کے بعد عالمی ایران، ترکیہ و روس سمیت کئی ممالک نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایسے میں آئیے اسماعیل ہنیہ سے متعلق کچھ اہم باتیں جانتے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کا پورا نام اسماعیل عبد السلام احمد ہنیہ ہے۔ ان کی پیدائش 29 جنوری 1963 کو غزہ میں ہوئی تھی۔ ہنیہ کا تعلق ایک غریب اور محنتی خاندان سے تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال غزہ پٹی میں گزارے۔
اسماعیل ہنیہ نے اپنی ابتدائی تعلیم غزہ میں حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے اسلامی یونیورسٹی آف غزہ سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، جہاں انہوں نے عربی ادب میں تخصص کیا۔ وہ یونیورسٹی کے دوران اخوان المسلمون کی طلبہ تنظم میں شامل ہوئے اور وہیں سے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔
1987 میں فلسطین میں پہلے انتفاضہ (انتفاضہ) کے دوران اسماعیل ہنیہ نے حماس میں شمولیت اختیار کی۔
1992 میں اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے 415 کارکنان کو ملک بدر کر کے جنوبی لبنان بھیج دیا۔ یہ واقعہ ہنیہ کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا، مگر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 1993 میں فلسطین واپس آکر حماس کے سیاسی شعبے کو بھرپور مضبوط کیا۔
2006 میں فلسطین کے عام انتخابات میں حماس نے بڑی کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کو فلسطین کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ان کی حکومت نے فلسطین کے اندر اور باہر سیاسی ماحول میں بڑے تبدیلیاں لائیں۔ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور کئی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔
2007 میں فتح اور حماس کے درمیان تنازعہ کے بعد حماس نے غزہ پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور ہنیہ نے وہاں کی حکمرانی سنبھالی۔ ہنیہ کی حکومت نے عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری کی کوششیں کیں، مگر غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل نے غزہ کے عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا۔
اسماعیل ہنیہ کی زندگی جدوجہد، مشکلات، اور سفارتی مہارت کی علامت مانی جاتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ وہ فلسطینی لیڈر تھے جو سفارتی سطح پر انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنی بات پوری شدت کے ساتھ کہنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس نے سفارتی اور سیاسی محاذ پر کئی اہم فیصلے کیے، جس نے انہیں عالمی سطح پر پہچان دلائی۔ ان کی قیادت میں حماس نے عوامی حمایت میں اضافہ کیا اور فلسطینی کاز کو مضبوط کیا۔
2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کی قیادت سنبھالنے والے اسماعیل ہنیہ کا نام اور چہرہ اجنبی نہ تھا۔ ان کی قیادت میں حماس نے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے حماس کو بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط سیاسی حیثیت دلانے میں مدد دی۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران ان کے تین بیٹے اور 4 پوتے بھی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو ئے۔ اس کے باوجود فلسطینی کاز سے ان کی وابستگی اور بیانیہ مضبوطی سے جاری رہا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کئی رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ متحمل اور سفارتی انداز و اطوار میں ڈھلے ہوئے تھے۔
اسماعیل ہنیہ اپنی سفارتی و سیاسی زندگی میں ایک عملی و مدبر پسند سیاستدان اور سفارت کار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال جلاوطنی اور مہاجرت میں گذرے۔ حتیٰ کہ ان کی موت بھی دوسرے ملک میں ہوئی۔
سات اکتوبر کو اسرائیل حماس جنگ شروع ہونے کے بعد اسماعیل ہنیہ نے اسرائیلی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم خود کو غزہ کی ریت میں ڈوبتے ہوئے پاؤ گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔