مغربی اتر پردیش میں بی جے پی سے پسماندہ طبقہ نے بنائی دوری
مغربی یو پی میں کسانوں کا اتحاد اس قدر حاوی ہوا کہ جاٹ اور مسلم متحد ہوتے نظر آ رہے ہیں جو کہ بی جے پی کے لئے نقصان کی بات ہے۔
مرادآباد: جاٹ توازن بگڑنے کے بعد بی جے پی کا او بی سی ووٹ بھی خطرے میں ہے کیونکہ بی جے پی جن مدعوں کی بدولت اقتدار تک پہنچی ہے اب ان مدعوں میں سیندھ لگ گئی ہے۔ ہندو-مسلم اور ہندوتوا کے نام پر سیاست اب عوام کو پسند نہیں آ رہی ہے۔ اسی مدعہ کا استعمال کر کے بی جے پی او بی سی، برہمن اور دلت برادری کو اپنے پرچم کے نیچے لانے کی کوشش کر تی رہی ہے، مگر اس بار بی جے پی کی یہ حکمتِ عملی فیل ہوتی نظر آ رہی ہے، کیونکہ زرعی قوانین نے کسانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، جس کی بدولت کسان بی جے پی کے اس مدعے سے الگ ہو گیا ہے، جس کے سہارے بی جے پی پھر سے یو پی میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : عآپ کا دہلی ماڈل گوا میں نہیں چلے گا: ابھیشیک منو سنگھوی
او بی سی کے مدعے کچھ ایسے ہی ہیں، ان مدعوں میں بی جے پی کا ہندوتوا کا نعرہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی حکومت کے تین وزیروں سمیت ممبراسمبلی کا ایک کے بعد ایک استعفیٰ دینا زعفرانی پارٹی کو بھاری پڑ گیا ہے۔ مغربی یو پی کے پہلے فیس میں بی جے پی لیڈران کی تقریروں میں بی جے پی کے پرانے مدعے نظر آئے، مگر ان کا کوئی فائدہ ہوتا نہیں دکھائی دے رہا، جس کے بعد بی جے پی لیڈران کے سُر بدلے اور کسانوں کو فائدہ پہونچانے، کورونا کے دور میں غریبوں کی مدد کرنے، کمزوروں کو فلاحی منصوبے دینے جیسے بیان دینے پڑے، مگر زمین پر کوئی سچائی نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی لیڈران کی یہ باتیں بھی عوام کے دل پر اثر نہیں کر پائیں۔
بی جے پی کے یوگی حکومت کے ایک وزیر سوامی پر ساد موریہ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ بی جے پی حکومت نے دلت، پسماندہ، کسانوں، بے روز گار نو جوانوں اور چھوٹے کاروباریوں، مز دوروں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ یہ وہ پہلو ہے جس نے مشرقی یو پی میں انتخابی دور کو اعلیٰ و پسماندہ طبقوں میں تبدیل کر دیا اور بی جے پی کا وہ مدعا کہیں کھو گیا جس کے سہارے وہ اقتدار تک پہنچے تھے۔
مغربی یو پی میں کسانوں کا اتحاد اس قدر حاوی ہوا کہ جاٹ اور مسلم متحد ہوتے نظر آ رہے ہیں جو کہ بی جے پی کے لئے نقصان کی بات ہے۔ ان مدعوں سے سیکولر سیاست کرنے والی پارٹیاں خوش ہیں کیونکہ انہیں بن مانگے سب کچھ ملنے کو تیار ہے۔ اب بی جے پی کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے وہ یوپی اسمبلی انتخابات میں اسی طاقت سے واپس آئے جس کی بدو لت انہوں نے یہاں کا اقتدار سنبھالا تھا۔
سیاسی جانکاروں کی مانیں تو ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا وہ 30 فیصد ووٹ جو انہیں ہندوتوا کے مدعے پر ملتا ہے حکومت سازی کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کے بعد جو بھی ووٹ بی جے پی کو ملا تھا اس میں ترقیاتی وعدے بھی شامل تھے، جنہیں پورا کرنے میں بی جے پی حکمراں نا کام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاٹ سے لے کر او بی سی و دلت ووٹ بی جے پی کو چھو ڑتا ہو ا نظر آ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار اس کے لئے زیادہ ذمہ دار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مان رہے ہیں کیونکہ انہوں نے کسی کے ساتھ انصاف نہیں کیا، بلکہ او بی سی و دلت برادریوں کو پوری طرح سے نظر انداز کیا، جس کا فائدہ اٹھانے میں سماج وادی پارٹی سب سے آگے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے بیشتر لیڈرا ن نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں شمولیت حاصل کی۔
کانگریس و بی ایس پی بھی بی جے پی کی انہیں خامیوں کو عوام کے بیچ لے جا کر بھنانے کی کو شش میں ہیں۔ پہلے و دوسرے فیس کی ووٹنگ یہ طے کرے گی کہ عوام بی جے پی کے مدعوں کو تر جیح دیتی ہے یا پھر فلاحی مدعوں پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔