بلقیس بانو معاملے میں حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا ’قصورواروں کی رہائی اصولوں کے مطابق‘
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کہا کہ ’’قانون یہ نہیں کہتا کہ سبھی کو سزا دی جائے اور پھانسی دی جائے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو سدھرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘
بلقیس بانو کے قصورواروں کی رِہائی کے معاملے پر مرکزی حکومت اور گجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں آج اپنی دلیلیں پیش کیں۔ گجرات حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے بتایا کہ قصورواروں کی رِہائی اصولوں کی مطابق ہی کی گئی ہے۔ ایس وی راجو نے کہا کہ سزا سنائے جانے کے وقت عدالت کو بھی پتہ تھا کہ 14 سال کے بعد چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ عدالت نے ایسی سزا نہیں دی تھی کہ قصورواروں کو 30 سال بعد ہی چھوٹ دی جائے گی۔
مرکزی حکومت اور گجرات حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس اُجول بھویان کی بنچ سے کہا کہ عدالت بھی مانتا ہے کہ جرم اتنا بہیمانہ نہیں تھا۔ اس پر جسٹس ناگرتنا نے رد عمل میں کہا کہ جرم بہیمانہ تھا، لیکن ریئریسٹ آف دی ریئر نہیں تھا۔ اے ایس جی نے اس کے بعد کہا کہ جرم بہیمانہ ہے لیکن قصورواروں کے سر پر لٹکا نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں 14 سال سے زیادہ وقت جیل میں گزارنے کے بعد سدھرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’قانون یہ نہیں کہتا کہ سبھی کو سزا دی جائے اور پھانسی دی جائے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو سدھرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران گجرات حکومت سے سوال پوچھا کہ سزا میں چھوٹ کی پالیسی آخر چنندہ لوگوں کے لیے ہی کیوں ہے؟ دو ججوں کی بنچ نے سوال کیا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ چھوٹ کی پالیسی کو چنندہ طریقے سے کیوں نافذ کیا جا رہا ہے؟ سپریم کورٹ نے ساتھ ہی کہا کہ اصلاح کا موقع صرف کچھ قیدیوں کو ہی کیوں دیا گیاَ یہ موقع تو ہر قیدی کو دیا جانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چھوٹ کی پالیسی تب نافذ کی جا رہی ہے جب قیدی اہل ہیں۔ یہ اجتماعی طور سے نہیں کیا جانا چاہیے، یہ صرف انہی لوگوں کے لیے کیا جانا چاہیے جو اس کے اہل ہیں یا پھر یہ ریمیشن انھیں ملنا چاہیے جنھوں نے اپنی سزا کا 14 سال جیل میں گزار لیا ہے۔
واضح رہے کہ بلقیس کے قصورواروں کو گجرات حکومت نے رِہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اے ایس جی نے اس تعلق سے سپریم کورٹ کی بنچ کو بتایا کہ گزشتہ سال مئی میں سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کی بنیاد پر قصورواروں کی رِہائی کی گئی۔ فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ریمیشن پر فیصلے کا حق ریاستی حکومت کا ہے نہ کہ مرکز کا۔ گجرات حکومت نے 2014 میں ریمیشن پالیسی میں تبدیلی کی تھی۔ اس کے بعد ان قصورواروں کو ریمیشن دینے کا حق مرکز کے پاس ہے، جس کیس کی جانچ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ کی گئی ہو۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو خارج کر دیا اور کہا کہ جہاں جرم کیا گیا ہے اسی ریاست کی حکومت فیصلے لے سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔