کیا حیدرآباد 2 جون سے نہیں رہے گا آندھرا پردیش کا دارالحکومت؟ 10 سالہ معیاد ختم مگر حتمی فیصلہ ندارد
دارالحکومت کی تبدیلی کا معاملہ اس لیے بھی مشکل امر ہے کیونکہ تقسیم کے پروگرام کے تحت 1.4 لاکھ کروڑ روپے تک کے عوامی اثاثوں کی منتقلی ابھی زیر التوا ہے۔
نظام کا شہر حیدرآباد 2 جون سے آندھرا پردیش کا دارالحکومت نہیں رہے گا۔ یہ فیصلہ آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد بنائی گی نئی ریاست تلنگانہ کے وقت کیا گیا تھا کہ 10 سال تک یہ شہر دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت رہے گا۔ 10 سال بعد یہ صرف تلنگانہ کا دارالحکوت رہ جائے گا اور آندھرا پردیش کو اپنا نیا دارالحکومت بنانا ہوگا۔ دس سال کی مدت 2 جون 2024 کو ختم ہو رہی ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک آندھرا پردیش کے نئے دارالحکومت سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
واضح رہے کہ آندھرا پردیش تنظیم نو قانون یکم مارچ 2014 کو نافذ ہوا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ حیدرآباد تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں کا مشترکہ دارالحکومت ہوگا جس کی مدت 10 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس قانون کے تحت حیدرآباد 2 جون 2024 سے صرف تلنگانہ کا دارالحکومت ہوگا۔ جب وائی ایس آر کانگریس کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی 2019 میں چندرابابو نائیڈو کی زیرقیادت ٹی ڈی پی کو ہٹا کر اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے تین دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
چندرابابو نائیڈو نے اپنے دورِ حکومت میں ریاست کے شہر امراوتی کو نیا دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کرتے رہے لیکن وائی ایس جگن موہن ریڈی نے ریاست کے لیے تین دارالحکومت بنانے کا اعلان کرکےچندرابابونائیڈو کی امراؤتی کو دارالحکومت بنانے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ جگن موہن ریڈی نے غیرمرکزیت اور فلاح و بہبود پر مبنی انتظامہ کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے امراوتی کو ریاست کا قانون ساز دارالحکومت، کرنول کو عدالتی دارالحکومت اور وشاکھاپٹنم کو ایگزیکٹیو دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 13 مئی کو لوک سبھا اور اسمبلی کے ایک ساتھ ہونے والے انتخابات سے قبل جگن موہن ریڈی ریاست کے لوگوں سے وشاکھاپٹنم کو دارالحکومت بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے ان کے وعدوں کی تکمیل پر شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دارالحکومت کی تبدیلی کا معاملہ اس لیے بھی مشکل امر ہے کیونکہ تقسیم کے پروگرام کے تحت 1.4 لاکھ کروڑ روپے تک کے عوامی اثاثوں کی منتقلی ابھی زیر التوا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ریاست کی دو اہم سیاسی پارٹیاں ریاست کے سیاسی مستقبل کے بارے میں متفقہ فیصلے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی کے ذریعے ریاست کے لیے تین دارالحکومت کی تجویز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور وزیر اعلیٰ نے آندھرا پردیش کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وشاکھاپٹنم سے کام کریں گے، لیکن 2024 کے آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات سے پہلے وہ بندرگاہی شہر منتقل ہونے میں ناکام رہے۔ ان کی تین دارالحکومتوں کی تجویز سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ بھارت نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق آئی پی ایس افسر وی وی لکشمی نارائن کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مرکز کو مداخلت کرنی چاہیے اور اس شق کو آگے بڑھانا چاہیے جس کے تحت آندھرا پردیش و تلنگانہ کی مشترکہ دارالحکومت کے طور پر حیدرآباد کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ عدالت کا حتمی فیصلہ ہونے تک حیدر آباد کی مشترکہ دارالحکومت کی حیثیت بر قراررکھا جانا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔