ہم اڈانی کے ہیں کون: ’کیا آپ کا بنیادی کام اڈانی کے لیے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں کانٹریکٹ حاصل کرنا ہے؟‘

کانگریس نے پی ایم مودی سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ ان کا کام ہندوستانی عوام کے لیے کچھ کرنے کی جگہ اپنے متر گوتم اڈانی کے لیے ہندوستان اور دیگر ممالک میں کانٹریکٹ حاصل کرنا ہے؟

جے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

سابق مرکزی وزیر اور کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے تحت سوالات کا چھبیسواں سیٹ آج جاری کر دیا۔ سوالوں کے تازہ سیٹ میں ایک بار پھر پی ایم مودی سے تین سوالات کیے گئے ہیں جو اڈانی گروپ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جاری بیان میں لکھا ہے کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا، ہم اڈانی کے ہیں کون (ایچ اے ایچ کے) سیریز میں آپ کے لیے تین سوالات کا چھبیسواں سیٹ پیش ہے۔ اس سے قبل ہم نے آپ سے دو بار ہمارے قریبی پڑوسی بنگلہ دیش کی قیمت پر آپ کے متر گوتم اڈانی کے کاروباری گروپ کو مزید امیر بنانے کی آپ کی واضح جلد بازی کے بارے میں پوچھا تھا۔ آج ہم اس ایشو پر آپ سے جواب مانگ رہے ہیں کہ کیسے آپ نے اپنے پسندیدہ کاروباری گروپ کو مزید ایک اہم پڑوسی ملک سری لنکا پر تھوپنے کی کوشش کی۔‘‘ پھر وہ اپنے تین سوالات پیش کرتے ہیں جو اس طرح ہیں...

سوال نمبر 1:

ہندوستان، جاپان اور سری لنکا کی حکومتوں (تب سری لنکا حکومت وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے کی قیادت میں چل رہی تھی) نے 28 مئی 2019 کو ہندوستان اور جاپان کی شراکت داری کے ساتھ کولمبو ساؤتھ پورٹ میں ایسٹ کنٹینر ٹرمینل تیار کرنے کے لیے ایک عرضداشت پر دستخط کیے تھے۔ ایک سال بعد 9 جون 2020 کو وزیر اعظم مہندا راجپکشے کی قیادت میں سری لنکائی کابینہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان نے اڈانی پورٹس کو اپنے غیر ملکی ٹرمینل آپریٹر کی شکل میں ’منتخب‘ کیا ہے۔ سودے کے حیرت انگیز طور پر رد ہونے کے بعد راجپکشے حکومت نے اس کی جگہ ہندوستان اور جاپان کو کولمبو کے ویسٹ کنٹینر ٹرمینل کو 35 سال کی مدت کے لیے مینوفیکچرنگ، آپریٹنگ اور ٹرانسفر پٹہ کے تحت دینے کی تجویز پیش کی، جسے 30 ستمبر 2021 کو آخری شکل دی گئی تھی۔ سری لنکا کی کابینہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہندوستان نے اڈانی پورٹس کو شراکت دار کی شکل میں ’نامزد‘ کیا تھا۔ سری لنکا کے وزیر خارجہ علی صابری نے 5 مارچ 2023 کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں اس سودے کو ’حکومت سے حکومت‘ بندرگاہ پروجیکٹ کی شکل میں متعارف کیا تھا۔ اس ’حکومت سے حکومت‘ سودے کے لیے آپ نے کس بنیاد پر اڈانی پورٹس کا ’انتخاب‘ اور ’نامزدگی‘ کیا؟ کیا کسی دیگر ہندوستانی کمپنی کے پاس اس سودے میں سرمایہ کرنے کا موقع تھا، یا آپ نے اس سودے کو صرف اپنے قریبی دوستوں کے لیے محفوظ رکھا تھا؟


سوال نمبر 2:

اسٹریٹجک طور سے اہم ہمبن ٹوٹا پورٹ میں سرمایہ کاری نہ کرنے کے واجپئی حکومت کے 2002 کے فیصلے نے چینی فرموں کے لیے سری لنکا کے بندرگاہ علاقہ میں داخلہ کرنے کا راستہ صاف کر دیا تھا۔ کولمبو میں ہندوستان کی سرمایہ کاری جزوی طور سے ہمارے بالکل پڑوس میں چین کی توسیع کو روکنے کی ضرورت سے متاثر تھی۔ حالانکہ جیسا کہ ہم نے اپنی 3 مارچ 2023 کی ’ایچ اے ایچ کے‘ سیریز میں تذکرہ کیا تھا کہ اڈانی گروپ کے چینی شہریوں، جیسے اڈانی فیملی کے بھروسہ مند چانگ چنگ لنگ (عرف لنگو چانگ) کے ساتھ مشتبہ تعلقات ہیں، جو دیگر سرگرمیوں کے علاوہ چین اور پاکستان کے ساتھی شمالی کوریا کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے میں شامل رہا ہے۔ چین سے مشتبہ کاروباری رشتے رکھنے والے متروں کو اسٹریٹجک طور سے اہم معاہدہ دلانے کا راستہ ہموار کرنا ملک کے مفاد میں کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ رشتہ آپ کی عام طور پر انتہائی سرگرم جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ جانچ کے اہل نہیں ہیں؟

سوال نمبر 3:

آپ کے متروں کے لیے آپ کی پرزور پیروی سری لنکا کے منّار ضلع میں اسے 500 میگاواٹ کے وائنڈ پاور پروجیکٹ دلانے تک پہنچ گئی ہے۔ سیلون الیکٹرسٹی بورڈ کے سابق چیف ایم ایم سی فرڈیننڈو نے 10 جون 2022 کو سری لنکا کی پارلیمنٹ کے سامنے ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 24 اکتوبر 2021 کو ’’صدر (گوٹبایا راجپکشے) نے ایک میٹنگ کے بعد مجھے بلایا اور کہا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم مودی ان پر اڈانی گروپ کو پروجیکٹ سونپنے کا دباؤ بنا رہے ہیں‘‘۔ حالانکہ انھوں نے بعد میں دباؤ کی وجہ سے ان تبصروں کو واپس لے لیا تھا، لیکن فرڈیننڈو کے اس انکشاف نے پوری طرح سے کرونی کیپٹلزم کی سانٹھ گانٹھ کا پردہ فاش کر دیا تھا جس میں آپ شامل رہے ہیں۔ کیا آپ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ آپ کا بنیادی کام ہندوستان کے لوگوں کے لیے کام کرنے کی جگہ اپنے متر گوتم اڈانی کے لیے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں کانٹریکٹ حاصل کرنا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔