ہلدوانی تشدد : مہلوکین کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ روپئے اور بے جا گرفتاری پر روک کا مطالبہ

جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند کے مشترکہ وفد نے ہلدوانی کا دورہ کرتے ہوئے ایس ڈی ایم اور سٹی مجسٹریٹ سے ملاقات نیز مولانا محمود مدنی کا وزیر داخلہ کو مکتوب لکھ کر تشویش کا اظہار

<div class="paragraphs"><p>وفد کی حکام سے ملاقات</p></div>

وفد کی حکام سے ملاقات

user

پریس ریلیز

 نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند کا ایک مشترکہ وفد آج ہلدوانی پہنچا اور ایس ڈی ایم، سٹی مجسٹریٹ اور مقامی پولس اسٹیشن انچارج سے ملاقات کی۔ وفد نےہلدوانی کے بن بھول پورہ میں مدرسہ پر انہدامی کار روائی کے بعد پولیس انتظامیہ کی جانب دارانہ اور انتقامی کارروائی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

دریں اثنا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے وزیر داخلہ حکومت ہند کو مکتوب لکھ کر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، مولانا مدنی نے مذہبی مقامات کے انہدام میں جلد بازی پربھی سوال اٹھایا ہے اور اس کا مستقل حل نکالنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

اس وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، نائب امیرجماعت اسلامی ہند ملک معتصم، نائب امیر جماعت اسلامی ہند شفیع مدنی، مولانا غیور احمد قاسمی سینئر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا شفیق احمد القاسمی مالیگانوی سینئر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، لئیق احمد خاں  معاون سکریٹری جماعت اسلامی ہند، سید ساجد جماعت اسلامی ہند شامل تھے۔


وفد نے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ ’’ہلدوانی کی موجودہ صور ت حال انتظامیہ کی جلد بازی کا نتیجہ ہے ۔انتظامیہ نے بلڈوزر کی کارروائی انجام دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا، جبکہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔‘‘ وفد نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’’پروٹوکول کی رعایت کیے بغیر شوٹ ایٹ سائٹ کا آرڈ رکس بنیاد پر دیا گیا جس کہ وجہ سے اتنی جانیں تلف ہوئیں۔ یہ بھی افسوسناک ہے کہ پولس آنسو گیس استعمال کرنے کے بجائے پتھر بازی میں ملوث تھی جیسا کہ مختلف ویڈیو فوٹیز میں مشاہدہ کیا گیا ۔بہرحال جو بھی صور ت حال ہلدوانی میں پیدا کی گئی ہے ، وہ کسی بھی مہذب سماج میں ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

وفد نے واضح طور پر کہا کہ ’’جو بھی افراد تشدد میں مبتلا تھے ان پر کارروائی ہونی چاہیے لیکن سرچ آپریشن کے ذریعہ بے قصوروں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنا، مسلم اقلیت کے محلوں میں خواتین اور بچوں کو دھمکانا اور ا نتقامی جذبے سے لوگوں کو بند کرنا نہایت غلط قدم ہو گا۔ اس لیے پولس افسران کو متنبہ کیا جائے کہ لوگوں کو پریشان نہ کریں، بلکہ ضلع انتظامیہ امن و امان اور اعتماد کی بحالی کے لیے موثر قدم اٹھا ئے نیز جن کی جانیں تلف ہوئی ہیں  ان کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے معاوضہ اور گھر کے ایک رکن کو نوکری دی جائے۔‘‘


وفد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’’مذہبی مقامات کے انہدام سے پہلے متاثرہ فریق کو ہر طرح سے تشفی حاصل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، نیز اعتماد میں لیے بغیر کسی بھی کارروائی سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے، ہندستان جیسے مذہبی اکثریت والے ملک میں لوگوں کے لیے مذہبی معاملہ انتہائی جذبات سے وابستہ ہوتا ہے، اس کے لیے اس کو نظر انداز کرنا اور ہٹلر شاہی کی راہ اختیار کرتے ہوئے انہدام کو انتقام میں بدلنا ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہلدوانی میں ہوا ہے ، اسے روکا جا سکتا تھا اگر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا۔‘‘

وفد کے مطابق ’’اتراکھنڈ میں یہ روایت بن گئی ہے کہ مسلم اقلیتوں سے منسوب عبادت گاہوں کو منہدم کر دیا جاتا ہے اور پھر کچھ افراد ویڈیو بنا کر انہدام پر جشن مناتے ہیں، جس سے ایک طبقے کی شدید دل آزادی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال ملک کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس سے ملک کی فضا مسموم ہوتی ہے۔‘‘ وفد نے ایس ڈی ایم سے مطالبہ کیا کہ ’’وہ ذاتی طور سے ہمارے مطالبات پر غور کریں اور صورت حال کی بہتری کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔‘‘ وفد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’’اس واقعہ کی عدالتی انکوائری ہائی کورٹ کے حاضر سروس  یا ریٹائرڈ حج سے کرائی جائے۔‘‘


اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے کہا کہ ہم شروع سے پولس انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور لگاتار امن وامان کی بحالی کے لیے کوشاں رہے ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہلدوانی کے سرپرست مفتی عبدالباسط متاثرہ علاقے میں لوگوں کے درمیان کام کررہے ہیں، آج کے وفد میں بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔