گجرات: اسپتال میں آگ لگنے سے 8 مریضوں کی ہلاکت، دو دن بعد بھی کیوں درج نہیں ہوئی ایف آئی آر؟

ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ محکمہ فائر نے ایک رپورٹ دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسپتال نے آگ سے حفاظت کے لئے تمام اقدامات کیے گئے ہیں۔ پھر اتنا بڑا حادثہ کیوں پیش آیا! اس کا جواب محکمہ فائر کو دینا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

احمد آباد: گجرات کی راجدھانی احمد آباد میں واقع شریہ اسپتال میں آگ لگنے سے 8 افراد کی دردناک موت کا واقعہ 6 اگست کی صبح کو پیش آیا تھا، لیکن دو دن گزر جانے کے بعد بھی اس واقعہ کے لئے ذمہ دار کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کسی کووڈ- 19 کے لئے وقف اسپتال میں آگ لگنے کا یہ پہلا معاملہ اور لاپروائی کا یہ عالم ہے کہ اس معاملہ میں ابھی تک ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی ہے۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسا کر کے کسی کو بچانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی؟

گزشتہ سال سورت میں ایک کوچنگ سینٹر میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کی کئی خوفناک تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جن میں طلبا کوچنگ سینٹر کی عمارت سے نیچے کود رہے تھے۔ اس بھیانک حادثہ میں 22 افراد کی جان چلی گئی تھی۔ اس وقت پولیس نے فوری طور پر ایف آئی آر درج کر کے کوچنگ سینٹر کے مالک کو گرفتار کرنے کے علاوہ دو بلڈرز کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کے علاوہ دو فائر افسروں کو عمارت کے لئے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کرنے کی پاداش میں معطل کر دیا گیا تھا۔


لیکن تازہ شریہ اسپتال میں آگ لگنے کے واقعہ میں محکمہ فائر کی جانب سے تاحال اس وقعہ کی ذمہ داری لینے کے لئے کوئی آگے نہیں آیا ہے۔ ایسے میں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ جس طرح سورت کے معاملہ میں کوچنگ سینٹر کے مالک اور بلڈروں کے خلاف کارروائی کی گئی اسی طرز پر اسپتال انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لانی چاہیے تھی لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

’احمد آباد مرر‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک اعلیٰ افسر کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ابھی تک یہ تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ شریہ اسپتال کا اصل مالک کون ہے! احمد آباد زون-1 کے ڈی سی پی رویندر پٹیل کہتے ہیں کہ حادثہ سے موت ہونے کی شکایت درج کر لی گئی ہے اور وہ فارینسک رپورٹ سمیت پانچ محکموں کی رپورٹوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ احمد آباد مرر کے مطابق تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسپتال کی طرف سے کسی طرح کی لاپروائی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔


ڈی سی پی پٹیل نے کہا کہ اسپتال کی فائر این او سی کی مدت رواں سال 4 اپریل کو ختم ہو گئی تھی اور اسپتال کی جانب سے آتش شکن آلات کو از سر نو پُر کیے جانے اور این او سی لینے کا عمل 21 مارچ کو شروع کر دیا گیا تھا، لاک ڈاؤں کے سبب اسپتال اس کی درخواست متعلقہ محکمہ کو پیش نہیں کر سکا۔ تاہم ذرائع کے مطابق این او سی کو ڈیڈ لائن سے پہلے رینیو نہیں کرایا گیا۔

ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ محکمہ فائر نے ایک رپورٹ جمع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسپتال یں آگ سے حفاظت کے لئے تمام اقدامات کیے گئے ہیں۔ پھر اتنا بڑا حادثہ کیوں پیش آیا! اس کا جواب محکمہ فائر کو دینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔