گراؤنڈ رپورٹ: ’ان کے پاس سبھی ذات کا ڈاٹا موجود، فصلوں کا نہیں‘، اچھی فصل کے باوجود آلو کسانوں میں مایوسی
لوکیندر جیسے کسانوں کی حالت تقریباً پورے اتر پردیش میں یکساں ہے، خصوصاً علی گڑھ، کاسگنج، ہاتھرس، ایٹاوا، ایٹہ، قنوج، آگرہ میں آلو کی کاشت بہت اچھی ہونے کے بعد بھی کسانوں میں مایوسی ہے۔
مظفر نگر کے چڑیالا گاؤں کے لوکیندر چودھری نے اس مرتبہ 60 بیگھا زمین میں آلو کی کاشت کی ہے۔ اس بار آلو کی کاشت اچھی ہوئی ہے۔ ایک کسان کے لیے اچھی پیداوار قدرت کا ایک تحفہ ہوتی ہے، لیکن لوکیندر مانتے ہیں کہ زیادہ پیداوار تحفہ نہیں بلکہ بد دعا بن گئی ہے۔ منڈی میں آلو 3 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے اور کولڈ اسٹوریج میں 4 روپے کلو اسٹاک کرنے کا خرچ آ رہا ہے۔ سبھی کسان کولڈ اسٹوریج میں اسٹاک نہیں کر سکتے ہیں۔ منڈی میں آلو فروخت نہیں ہو رہا اور کھیت میں چھوڑ کر اسے سڑا نہیں سکتے۔ مزدور کا خرچ اور بھاڑا بھی واپس آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ امید کو ناامیدی میں بدل دیا گیا ہے۔ کاشت زیادہ ہونے پر حکومت کی طرف سے برآمدگی کی بات سنی ہے، لیکن ہم سے کسی خرید مرکز نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ افسوسناک یہ ہے کہ اس بار آلو کی بے حد خوبصورت اور معیاری فصل ہوئی ہے۔ امید تھی کہ اچھی قیمت ملے گی، لیکن...۔
لوکیندر جیسے کسانوں کی حالت تقریباً پورے اتر پردیش میں یکساں ہے۔ خصوصاً علی گڑھ، کاسگنج، ہاتھرس، ایٹاوا، ایٹہ، قنوج، آگرہ میں آلو کی کاشت بہت اچھی ہونے کے بعد بھی کسانوں میں مایوسی ہے۔ آلو کی زیادہ کاشت کے سبب وہ بہت زیادہ سستی شرح پر فروخت ہو رہا ہے، پھر بھی خریدار تلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ لاکھوں کسان تناؤ میں ہیں۔ کولڈ اسٹوریج بھی بھر چکے ہیں۔ چھوٹے کسان کولڈ اسٹوریج میں آلو جمع کرنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی ان کے پاس اتنی گنجائش ہے۔ حکومت نے آلو کو نیپال برآمد کرنے اور کچھ اضلاع میں پہلے مرحلہ میں آلو خریدنے کی بات کہی ہے۔ لوکیندر کہتے ہیں کہ کسان تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی فصل برباد نہ ہو، حکومت کا بھروسہ تو ٹوٹتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے یہاں تو گنے کی کاشت عروج پر ہے، لیکن گزشتہ کچھ وقت سے سبزی کی کاشت کی طرف بھی کسانوں کی دلچسپی بڑھی ہے۔ اگر ایسے ہی حالات رہے تو ہم سبزی کی کاشت چھوڑ دیں گے۔
ایک اندازہ کے مطابق اس بار 6.94 لاکھ ہیکٹیر اراضی میں آلو کی بوائی ہوئی ہے۔ گزشتہ بار آلو مہنگا فروخت ہوا تھا تو کسانوں کا رجحان بڑھنے لگا۔ اس مرتبہ تقریباً 250 میٹرک ٹن آلو کی کاشت ہوئی۔ رقبہ اور پیداوار بڑھنے کے سبب کولڈ اسٹوریج بھر گئے اور منڈیوں میں گاہک نہیں ملے۔ منڈی آڑھتی سیتارام بتاتے ہیں کہ 50 کلو کی بوری 110 روپے کی فروخت ہو رہی ہے۔ کسان خوش نہیں ہے تو آڑھتی کیسے خوش ہو سکتا ہے۔ منڈی کی حالت بھی خراب ہے، یہاں گاہک ہی نہیں ہیں۔ منڈیوں میں آلو کی بوریوں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ حکومت نے پہلے مرحلہ میں فرخ آباد، کوشامبی، اناؤ، مین پوری، ایٹہ، کاسگنج اور بریلی سے آلو خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں آلو 12 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ وہاں حکومت ہم سے آلو خرید کر بھیج سکتی ہے۔
آلو کی کم ہوئی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آلو کی اگیتی فصل اس بار نہ کے برابر ہوئی اور مغربی اتر پردیش کے امروہہ، بجنور، مراد آباد، میرٹھ، مظفر نگر کے کسانوں میں آلو کی کاشت کے لیے رجحان زیادہ ہو گیا۔ آلو کی کاشت کے لیے اس سے پہلے متھرا، آگرہ کے آس پاس کے اضلاع میں زیادہ دلچسپی تھی۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت کہتے ہیں کہ حکومت کاغذ پر بات کر رہی ہے اور کسان سڑک پر کھڑا ہے۔ کولڈ اسٹوریج والے کسان سے ایڈوانس پیسہ مانگ رہے ہیں۔ چھوٹا کسان یہ پیسہ سود پر اٹھا رہا ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ کھیتی کا پانچ سالوں کا ایک چکر ہے، حکومت کو اسے سمجھنا چاہیے۔ حکومت کے پاس کسانوں کی ہر ایک فصل کا ایک حقیقی اور کاروباری ڈاٹا ہونا چاہیے۔ کسانوں کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے پاس ذاتوں کا ڈاٹا ہے، کس کو کہاں سے الیکشن لڑانا ہے اس کی ریسرچ ہے، لیکن کسانوں کی فصلوں کا نہیں۔ کسان کی فصل کی اچھی قیمت دلانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اب حکومت آلو کی فصل کے لیے جو حالات بنا رہی ہے، اس میں تو ٹنوں آلو سڑ جائیں گے۔ حکومت کے پاس کسانوں کے لیے پہلے سے کسی اچھے منصوبے کی کمی ہے۔ حکومت کی دلچسپی محض نظر آنے میں ہے، جبکہ اسے حقیقی معنوں میں سرگرم ہونا چاہیے۔
فی الحال آلو کسانوں کی حالت ایسی ہے کہ کولڈ اسٹوریج میں جگہ نہ ہونے اور منڈی میں خریداری نہ ہونے کے سبب کسان خود گلی گلی جا کر آلو فروخت کر رہا ہے۔ بجنور کے کسان علیم الدین کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں آلو کو سڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ہیں اور اس لیے جو بھی پیسے مل جائیں اس سے کنبہ کی کچھ مدد ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے تمام دوستوں اور رشتہ داروں میں آلو بھیج رہے ہیں۔ علیم الدین کہتے ہیں کہ سڑنے سے تو اچھا ہے کہ کسی کے کام آ جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی کوشش جب تک زمین پر نظر آئے گی، تب تک آلو خراب ہو چکا ہوگا۔ اور پھر اسے معیار کی بنیاد پر رجیکٹ یعنی مسترد کر دیا جائے گا۔ ہمارے ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔