گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں گاؤں پھیل رہی ہے کسان تحریک کی آگ
گرجنت کا کہنا ہے کہ مل مالک باہر سے گنا خرید رہا ہے جبکہ یہاں کافی گنا موجود ہے۔ دراصل یہ ایم ایس پی سے بچنے کا کھیل ہے۔
دہلی-پوڑی شاہراہ پر میرٹھ اور بجنور کے درمیان قصبہ رام راج واقع ہے، جسے منی پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے ہستناپور روڈ پر واقع سنگت محلہ کے رہائشی سردار بوٹا سنگھ (40 سال) نے قومی آواز سے کہا، ’’کسانوں کی تحریک بالکل صحیح ہے اور یہ حقوق کی لڑائی ہے۔ ابھی ہم نے صرف راشن اور رضائی-گدے بھجوائے ہیں۔ اب ہم بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ قانون بنا کر کسانوں کو پیچھے لے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ قانون واپس لینا ہی ہوگا۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔ مودی جو کچھ بھی ہیں وہ کسانوں کی وجہ سے ہی ہیں اور کسان ان قوانین کو منسوخ کراکر ہی دم لیں گے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : کسان تحریک: پانچویں دور کی بات چیت آج، کسانوں نے بڑھایا دباؤ
رام راج کے اس سنگت محلہ میں کسانوں کے تقریباً 50 گھر ہیں اور سبھی کی مالی حالت بہتر ہے۔ نوجوان گرجنت سنگھ کہتے ہیں کہ یہاں 5 ایکڑ (تقریباً 35 بیگھا) زمین سے کم کا کوئی کسان نہیں ہے۔ یہاں ہر گلی میں گنے کی ٹرالی کھڑی نظر آتی ہے۔ گرجنت کا کہنا ہے کہ مل مالک باہر سے گنا خرید رہا ہے جبکہ یہاں کافی گنا موجود ہے۔ دراصل یہ ایم ایس پی سے بچنے کا کھیل ہے۔ یہاں کے کسانوں کو پرچی جاری کرنی پڑتی ہے اور ایم ایس پی پر ہی گنا خریدنا پڑے گا لیکن باہر سے سستا گنا خریدا جا رہا ہے اور یہاں کے کسانوں کا گنا سڑ رہا ہے۔
ایک اور کسان نریندر سنگھ (46 سال) کا کہنا تھا کہ آپ یہاں کے اس وقعہ سے ہی نئے زرعی قانون کو سمجھیے، آج مل مالکان کسانوں سے ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) پر خریدنے کو پابند ہیں، کل جب ایم ایس پی نہیں رہے گی تو خریدار اپنی مرضی سے کسان کی فصل کی قیمت طے کرے گا۔ کسان اگر کم قیمت پر اپنی فصل نہیں بیچے گا تو اس کی فصل خراب ہو جائے گی اور مجبوری میں وہ نقصان اٹھائے گا۔ نریندر سنگھ نے مزید کہا، ’’خریدار نہ ملنے کی وجہ سے دھان کی فصل میں مجھے 50 ہزار کا نقصان ہوا ہے۔ ایم ایس پی 1900 روپے ہے جکہ 1791 کونٹل دھان میں نے 1600 کے بھاؤ میں بیچ دیا۔ دھان کے کانٹے پر ملازم موجود نہیں ہے اور ہریانہ میں ہماری فصل فروخت نہیں ہو سکی۔‘‘
ایک 65 سالہ بزرگ کسان امریک سنگھ کہتے ہیں کہ کسانوں کی یہ تحریک بالکل جائز ہے اور ان پر عائد ہو رہے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ یہ بی جے پی کا ایجنڈہ ہے، یہ مخالفت کرنے والوں کو بدنام کرنے کے لئے نئے نئے الزامات لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’کسانوں پر خالصتانی ہونے کا الزام بی جے پی کی سازش کا حصہ ہے۔ تمام کسان جدوجہد کر رہے ہیں اور انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ مودی جی کے خلاف ہمارا غصہ بڑھتا جا رہا ہے، وہ ان قوانین کو جتنا جلدی ہو سکے واپس لے لیں بصورت دیگر ہم دہلی جا کر مظاہرہ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔‘‘
ایک اور 70 سالہ بزرگ کسان گردیپ سنگھ ملک نے کہا، ’’مودی جی نے یہ غلط قانون منطور کیا ہے اور ہم تحریک میں شامل تمام کسانوں کے ساتھ ہیں۔ یہ سیاہ قانون ہے، جسے واپس لیا جانا ناگزیر ہے۔ کھیتی کو زوال پذیر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ کہتے ہیں ہم کسانوں کی ترقی کریں گے، ہم کہتے ہیں ہماری ترقی مت کرو، ہم جیسے ہیں، ویسے ہی رہنے دو۔ ہماری بہن بیٹیوں پر پیسہ لے کر تحریک میں شامل ہونے کے الزام عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس تحریک میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے رشتہ دار بھی شامل ہیں، خالصتانی کہہ کر اس تحریک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
خیال رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے تین زرعی قوانین کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں کسان دہلی کی سرحدوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تحریک کو پنجاب اور ہریانہ کے بعد اتر پردیش کے کسانوں کی بھی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور متعدد ریاستوں کے کسانوں نے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ کسانوں سے حکومت کی کئی دور کی بات چیت ناکام ہو چکی ہے۔ اب گاؤں گاؤں میں احتجاج کی آگ پھیلنے لگی اور لوگوں کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کسانوں میں ہلچل نظر رہی ہے اور بڑی تعداد میں کسان دہلی جا کر احتجاج میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔