ہریانہ اسمبلی تحلیل، گورنر سے مل گئی منظوری، کانگریس نے کہا ’قصداً 6 ماہ تک نہیں بلایا گیا اسمبلی اجلاس‘
جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ اراکین اسمبلی ایوان میں آتے تو یہ ثابت ہو جاتا کہ بی جے پی کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے، وزیر اعلیٰ یہ جانتے ہوئے بھی عہدہ پر بنے رہے کہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔
ہریانہ اسمبلی کی 90 نشستوں کے لیے آئندہ 5 اکتوبر کو انتخاب ہونا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے امیدواروں نے اپنا پرچۂ نامزدگی بھی داخل کر دیا ہے، اور ایسے ماحول میں گورنر نے ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ نائب سنگھ سینی کی کابینہ نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی جسے 12 ستمبر کو گورنر کی منظوری مل گئی۔ اس فیصلہ کے بعد اب ریاست میں نائب سنگھ سینی کی حکومت ’کارگزار‘ یعنی کیئر ٹیکر کی طرح کام کرے گی۔ وزیر اعلیٰ سینی پالیسی پر مبنی فیصلے بھی اب نہیں لے سکیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ ہریانہ اسمبلی کا آخری اجلاس 13 مارچ کو بلایا گیا تھا۔ آئینی طور پر چھ ماہ میں ایک بار اسمبلی اجلاس بلانا لازم ہے۔ اس آئینی بحران کو ٹالنے کے لیے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے گورنر بنڈارو دتاترے سے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ ضابطے کے مطابق ایوان کے دو اجلاس کے درمیان چھ ماہ سے زیادہ کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔
گورنر بنڈارو دتاترے کے ذریعہ ریاستی اسمبلی تحلیل کیے جانے کو منظوری دیے جانے کے بعد کانگریس حملہ آور دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ’ایکس‘ پر اس سلسلے میں ایک پوسٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’ہریانہ کے گورنر نے وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کے ایک دن بعد 13 مارچ 2024 سے اسمبلی اجلاس بلانے میں ریاستی حکومت کی ناکامی کے سبب پیدا آئینی بحران ٹالنے کے لیے آج ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ قصداً چھ ماہ تک اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا گیا، کیونکہ ایک بار اراکین اسمبلی ایوان میں آ جاتے تو یہ ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتا کہ بی جے پی کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جئے رام رمیش نے اپنے پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’وزیر اعلیٰ یہ جانتے ہوئے بھی اپنے عہدہ پر بنے رہے کہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی کے ذریعہ جمہوریت کو تار تار کرنا ہے جسے اب سمجھ نہیں آتا کہ اقتدار پر گرفت کے بغیر کیسے رہا جائے۔ لیکن 8 اکتوبر 2024 کے بعد سے ان کے پاس نئے حقائق کے ساتھ تال میل بٹھانے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہوگا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔