مولانا آزاد کی وراثت کو نظر انداز کرتی حکومت، لائبریری بند، 10 ہزار کتابیں دھول کی نذر

موجودہ حکومت کی جانب سے عظیم شخصیات کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کوئی نیا نہیں ہے، اس سے پہلے نہرو لائبریری کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جا چکا ہے۔

مولانا آزاد کی نواسی حسن آرا
مولانا آزاد کی نواسی حسن آرا
user

قومی آواز بیورو

جنگ آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے والے اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کی کاوشوں کو موجودہ حکومت کی جانب سے کس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے نام سے منسوب لائبریری کو بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی جانب سے آئی سی سی آر (انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز) کو تحفہ کے طور پر پیش کی گئیں 10 ہزار کتابیں دھول کی نذر ہو رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے عظیم شخصیات کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کوئی نیا نہیں ہے اور اس سے پہلے نہرو لائبریری کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جا چکا ہے۔

خیال رہے کہ آئی سی سی آر کے ہیڈ کوارٹر میں مولانا آزاد کی یاد میں وقف ’گوشہ آزاد‘ میں نایاب کتابوں اور مخطوطات کا ایک ذخیرہ ہے، ان میں موجود 10 ہزار سے زائد کتابیں مولانا آزاد نے تحفے کے طور پر پیش کی تھیں۔ ان کے ذاتی ذخیرے میں عربی، اردو اور فارسی زبانوں کے 197 نادر نسخے شامل تھے۔ آئی سی سی آر کے اس گوشہ میں اب خاک جمع ہو رہی ہے۔


مولانا آزاد کی نواسی حسن آرا نے اس بے حسی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کتابوں کو اتنی لاپرواہی سے رکھا دیکھ کر انہیں درد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کتابوں کا یہ مجموعہ ہمارے لیے ایک جذباتی قدر رکھتا ہے۔ اگر آئی سی سی آر اسے نہیں رکھ سکتا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ حسن آرا کو اس بات پر بھی تکلیف ہے کہ آئی سی سی آر نے مولانا آزاد کی تصویر بھی ہٹا دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی آر کے مختلف عہدیداروں سے بات کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ وہ کسی طرح اس لائبریری اور کتابوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں!

آئی سی سی آر کے ایک عملے نے بتایا کہ مخطوطات کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے اور آئی سی سی آر کی ویب سائٹ پر ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور دیگر کتابوں اور دستاویزات وغیرہ کو بھی ڈیجیٹائز کرنے کا عمل جاری ہے۔ لائبریری کی رکنیت اب نہیں دی جا رہی ہے لیکن "دلچسپی رکھنے والے لوگ سیکشن انچارج سے اجازت لے کر کتابوں اور مخطوطات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں"۔ اس طرح کی رسائی سے ہر کسی کو سکون محسوس نہیں ہوتا۔ ایک ریسرچ اسکالر نے کہا کہ ’’کتابوں کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی اور اس کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔