پڈوچیری میں سیاسی ہلچل سے گہلوت برہم، کہا ’بی جے پی اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے‘
راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے الزام عائد کیا کہ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اب پڈوچیری میں ایم ایل اے کو لالچ دے کر استعفی دلوانا بی جے پی کا غلط طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔
پڈوچیری میں گزشتہ کچھ دنوں سے جو سیاسی ہلچل جاری تھی، وہ آج ایک طرح سے اپنے عروج پر نظر آئی جب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ وی نارائن سامی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہو گئے۔ اس ناکامی کے بعد وزیر اعلیٰ نے اپنے وزراء سمیت لیفٹیننٹ گورنر کو استعفیٰ پیش کر دیا۔ پڈوچیری کے اس پورے سیاسی عمل سے راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کافی برہم ہیں۔ انھوں نے بی جے پی پر پڈوچیری میں کانگریس حکومت کو غیر اخلاقی طور سے گرانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس (بی جے پی) نے پڈوچیری میں ظاہر کر دیا ہے کہ وہ طاقت کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔‘‘
نارائن سامی کے ذریعہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد اشوک گہلوت نے سوشل میڈیا پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے لیفٹیننٹ گورنر کے توسط سے انتظامیہ چلانے میں دشواری پیدا کی، اور اب حکومت کو پیسہ کی طاقت سے گرا دیا۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ کرناٹک، پھر مدھیہ پردیش اور اب پڈوچیری میں پہلے ایم ایل اے کو لالچ دے کر استعفی دلوانا بی جے پی کا غلط طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ گہلوت نے ساتھ ہی کہا کہ ’’راجستھان میں بھی بی جے پی نے غیر اخلاقی طریقوں سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کا یہاں کے عوام نے انہیں مناسب جواب دیا۔‘‘
واضح رہے کہ کانگریس-ڈی ایم کے حکومت کی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے بعد پڈوچیری کے وزیر اعلی وی نارائن سامی نے پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ نارائن سامی نے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ نہ حاصل کرنے کے بعد لیفٹیننٹ گورنر تمیلیسائی سندراراجن سے ملاقات کی اور اپنے وزرا کونسل کے ہمراہ استعفیٰ دے دیا۔ اب یہ لفٹننٹ گورنر پر منحصر ہے کہ وہ اپوزیشن کو اگلے تین مہینوں تک حکومت بنانے کے لئے مدعو کرے یا مرکز کے زیر انتظام ریاست میں صدارتی حکمرانی کو نافذ کرے۔ کانگریس کی زیرقیادت حکومت کا دور حکومت 8 جون کو ختم ہو رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اکثریت حاصل کرنے کے دوران تمام اراکین (دونوں حکمران اور حزب اختلاف) ایوان میں موجود تھے۔ کانگریس-ڈی ایم کے کے سات ممبروں کے استعفے کے بعد حزب اختلاف کے 14 کے مقابلے میں اس کی طاقت 12 ہوگئی۔ اس وقت اسمبلی میں 26 ارکین ہیں۔
ایوان میں پارٹی کی پوزیشن: کانگریس -09 (بشمول اسپیکر)، ڈی ایم کے -02 اور آزاد ایک۔
حزب اختلاف: این آر کانگریس 07 ، انا ڈی ایم کے 04 اور بی جے پی کے تین نامزد ممبران۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔