نیتن یاہو کو ہٹانے کے لئے ان کے خاص حزب اختلاف کے ساتھ... سید خرم رضا

اسرائیل میں نیتن یاہو کو ہٹانے کے لئے ان کے قریبی دائیں بازو کے شدت پسند رہنما اور نیتن یاہو کے خاص بینٹ نفتالی حزب اختلاف کے رہنما یار لیپد کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لئے معاہدہ کر رہے ہیں

user

سید خرم رضا

11 دن تک بمباری کرنے اور راکٹ کے حملے جھیلنے کے بعد اسرائیل میں سیاسی ماحول بہت دھماکہ خیز ہو گیا ہے۔ اس دھماکہ خیز ماحول میں ایسا صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کا اقتدار سے جانا لگ بھگ طے ہے۔ اگر نیتن یاہو اقتدار سے جاتے ہیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کے قریبی مانے جانے والے بینٹ نفتالی نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

اسرائیل میں نیتن یاہو کو ہٹانے کے لئے ان کے قریبی دائیں بازو کے شدت پسند رہنما اور نیتن یاہو کے خاص بینٹ نفتالی حزب اختلاف کے رہنما یار لیپد کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لئے معاہدہ کر رہے ہیں۔ اتوار کو شدت پسند رہنما اور نیتن یاہو کے خاص بینٹ نفتالی نے اعلان کیا کہ وہ نیتن یاہو کے دور کے خاتمہ کے لئے حزب اختلاف کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں۔


یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسرائیل میں اس مرتبہ چار بار عام انتخابات ہو چکے ہیں، لیکن کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ 61 نشستیں حاصل نہیں ہوئیں۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی کل تعداد 120 ہے اور حکومت تشکیل کے لئے کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو 61 نشستیں درکار ہیں۔ اگر بدھ کے روز تک یعنی آج رات تک حزب اختلاف اپنی اکثریت پیش نہیں کر پایا تو 90 دن کے اندر اسرائیل میں پھر عام انتخابات کرانے ہوں گے۔ اس سے قبل نیتن یاہو کو وقت دیا گیا تھا، لیکن وہ اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے اس کے بعد اسرائیل کے آئین کے مطابق حزب اختلاف کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے 28 دن کا وقت دیا گیا تھا جس کی مدت آج ختم ہو رہی ہے۔

اگر اتحاد ہو جاتا ہے تو معاہدہ کے تحت بینٹ نفتالی پہلے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے اور بعد میں سینٹرسٹ جماعت یش ایتد پارٹی کے رہنما یار لیپد عہدہ سنبھالیں گے۔ اسرائیلی حزب اختلاف کی یش ایتد پارٹی ملک کی دوسرے نمبر کی پارٹی ہے اور اس کے سربراہ سابق ٹی وی اینکر اور سابق وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اس اتحاد میں جو پارٹیاں شامل ہو رہی ہیں ان میں کئی معاملوں کو لے کر آپس میں اختلاف ہیں، لیکن نیتن یاہو کو ہٹانے کے مدے پر متفق نظر آ رہے ہیں۔


اگر یہ مخلوط حکومت بن جاتی ہے تو اس میں پہلی مرتبہ کوئی عرب پارٹی حکومت کا حصہ ہوگی، کیونکہ اس اتحاد میں یونائٹیڈ عرب لسٹ یا رام کے نام سے معروف سیاسی پارٹی کا شامل ہونا لازمی ہے۔ یہ اتحاد اگر کامیاب ہو گیا تو یہ اپنے آپ میں اسرائیلی سیاست میں نیا اور منفرد تجربہ ہوگا کیونکہ شدت پسند بینٹ نفتالی کی قیادت میں یونائٹیڈ عرب لسٹ پارٹی کا حکومت میں شامل ہونا اپنے آپ میں ایک نئی پہل ہوگی۔

مبصرین کی رائے ہے کہ یہ اتحاد نیتن یاہو کے خلاف ضرور ہے لیکن یہ خطہ میں نئی سیاست کا آغاز بھی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بینٹ نفتالی کے رویہ میں اچانک تبدیلی کے پیچھے امریکی انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔ بینٹ نفتالی کے اعلان کے بعد نیتن یاہو نے دائیں بازو کے ارکان پارلیمنٹ سے نو منٹ تک اپیل کی، جس میں اس اتحاد کو اسرائیلی سلامتی کے لئے خطرہ بتایا اور کہا کہ خطرناک بائیں بازو کی حکومت تشکیل ہونے سے روکیں۔


49 سالہ نفتالی اسرائیل کے حائفہ میں امریکی یہودی مہاجر کے گھر میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم امریکہ میں حاصل کی، جس کی وجہ سے ان کو انگریزی میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وہ شدت پسند مذہبی یہودی ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ وہ اسرائیل کی کمانڈ و یونٹ کے افسر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ٹیک انڈسٹری میں کام کیا ہے اور یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں قانون کی پڑھائی کی ہے۔ 1999 میں انہوں نے اپنی سافٹ وئیر کمپنی بنا لی تھی اور سال 2005 میں اپنی کمپنی امریکی سیکورٹی کمپنی کو فروخت بھی کر دی تھی۔

نفتالی جو نئی نسل کے ہیں اور شدت پسندی میں نیتن یاہو سے بہت آگے ہیں۔ شیخ جراہ کی عرب آبادی کے سخت خلاف ہیں اور وہاں یہودی آبادی کو بڑھانے کے حق میں ہیں، لیکن ان کے اقتدار کی ڈور بائیں بازو کی یش ایتد پارٹی کے ہاتھوں میں رہے گی اس لئے ان کو اپنے خیالات اور رویہ میں تبدیلی کرنی پڑ سکتی ہے اور اگر تبدیلی نہیں کی تو اس اتحاد کا مستقبل نیتن یاہو سے بھی خراب ہو گا۔ اگر یہ اتحاد کسی صورت میں کامیاب ہو جاتا ہے تو خطہ کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ ابھی تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو اپنا اقتدار بچانے میں پوری طرح ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان پر لگے بدعنوانی کے الزامات اور شدت اختیار کرلیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔