کانوڑ یاترا کے لئے دیا گیا پولیس احکام اچھوت کی بیماری کو فروغ دے سکتا ہے: مختار عباس نقوی

اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے حوالے سے پولیس آرڈر کو لے کر ہر طرف تنقید ہو رہی ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس حکم کو واپس لیا جائے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے حوالے سے جاری کیے گئے پولس آرڈر کو لے کر سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ جس میں پولیس نے تمام ڈھابوں، کھانے پینے کی دکانوں اور دکانداروں کو نام کی تختیاں لٹکانے کا حکم دیا۔ اپوزیشن رہنما پہلے ہی اس کو لے کر جارحانہ تھے، اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے بھی طنز کرنا شروع کر دیا ہے۔

سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے سوشل میڈیا پر غصے کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا  کہ یہ آرڈر اچھوت کی بیماری کو فروغ دے سکتا ہے۔ عقیدے کا احترام ضرور ہونا چاہیے لیکن اچھوت کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے۔


سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا، “مظفر نگر پولیس نے عوامی بھائی چارے اور اپوزیشن کے دباؤ میں آکر ہوٹلوں، پھل فروشوں اور گلیوں میں دکانداروں کے نام لکھنے اور ظاہر کرنے کے انتظامی حکم کو رضاکارانہ بنا کر بالآخر اپنی پیٹھ تھپتھپا لی ہے۔اتنے سے ہی امن و اماں پسند کرنے والے عوام ماننے والے نہیں ہیں ایسے احکامات کو یکسر مسترد کیا جائے۔ معزز عدالت مثبت مداخلت کرے اور حکومت کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنائے کہ حکومت اور انتظامیہ آئندہ ایسا کوئی تفرقہ انگیز کام نہیں کرے گی۔ یہ محبت اور ہم آہنگی سے پیدا ہونے والے اتحاد کی جیت ہے۔

بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے کہا، "مغربی یوپی اور مظفر نگر ضلع کے کانوڑ  یاترا کے راستے پر آنے والے تمام ہوٹلوں، ڈھابوں، اسٹالوں وغیرہ کے مالکان کا پورا نام نمایاں طور پر ظاہر کرنے کا حکومت کا نیا حکم ایک غلط روایت ہے جو ہم آہنگی کو خراب کرتا ہے۔ عوامی مفاد میں حکومت اسے فوری طور پر واپس لے۔


دراصل، کانوڑ یاترا کا راستہ یوپی کے مظفر نگر میں تقریباً 250 کلومیٹر کا ہے۔ اس روٹ پر تمام دکانداروں، ڈھابوں، کھانے پینے والوں کے ساتھ ساتھ گلیوں میں دکانداروں کو ان کے ناموں کے پلے کارڈ لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مظفر نگر کے ساتھ ساتھ سہارنپور اور شاملی جیسے شہروں میں بھی حکم جاری کیا گیا ہے۔ اتر پردیش پولیس کے اس حکم کے بعد تنازعہ بھی بڑھ گیا اور حزب اختلاف کی  پارٹیاں حکمراں پارٹی پر حملہ آور ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔