معاشرہ اور صحت کے لئے فیک نیوز انتہائی تباہ کن و نقصاندہ: پنکج پچوری

پنکج پچوری نے کہا کہ صحافت میں معتبریت بہت ضروری ہے اور اگر صحافت میں معتبریت نہیں رہی اور سچائی کا فقدان رہا تو پھر خبر پر کون اعتبار کرے گا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

ممبئی: فیک نیوز کو معاشرے اور صحت کے لئے انتہائی تباہ کن قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سابق میڈیا ایڈوائزر پنکج پچوری نے کہا کہ صحافیوں کو ایسی خبر دینے سے بچنا چاہئے جس میں سچائی نہ ہو اور وہ صحت اور معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہو۔ یہ بات انہوں نے یونیسیف کی جانب سے میزل روبیلا اور ’کریٹکل اپریزل اسکل‘ (سی اے ایس) کے موضوع پرمنعقدہ میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

پنکج پچوری نے کہا کہ صحافت میں معتبریت بہت ضروری ہے اور اگر صحافت میں معتبریت نہیں رہی اور سچائی کا فقدان رہا تو پھر خبر پر کون اعتبار کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ غلط خبر آگ کی طرح پھیلتی ہے جب کہ سچ کو ثابت کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور اس وقت تک سماج کو بہت بڑا نقصان پہنچا چکی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیسیف نے فیک نیوز کے خلاف جنگ چھیڑتے ہوئے ’کریٹکل اپریزل اسکل‘ (سی اے ایس) یعنی ضروری جانچ پرکھ کا پیمانہ بتایا ہے۔ میڈیا ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ غلط خبروں سے بچا جائے اور اس کے لئے کیا طریقے اور پیمانے اپنائے جائیں جس سے منفی خبروں کو شائع یا جاری کرنے سے بچا جاسکے۔


این ڈی ٹی وی کے سابق صحافی اور گو نیوز کے ایڈیٹر پنکج پچوری نے صحت کے بارے میں خبر نگاری کے سلسلے میں کہا کہ اس میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ صحت کے بارے میں کوئی بھی غلط خبر کسی کی جان لے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے کسی دوا کے بارے میں کوئی خبر چلا دی جو نقصان دہ ہے تو یہ پورے سماج کے لئے گمراہی پھیلانے والی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فیک نیوز پھیلتی ہیں۔

انہوں نے اعداد و شمار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق پوری دنیا سے دس ہزار مضامین اور خبروں کا انتخاب کیا گیا تھا جس میں 15.9 فیصد فیک خبریں یا مضامین ہندوستان میں شائع ہوئے تھے۔ جب کہ امریکہ 9.7 کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا اور تیسرے نمبر پر برازیل تھا جس کا 8.5 تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فیک نیوز کس طرح جلد پاؤں پسارتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ سب سے زیادہ نیوز سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں جس کی تعداد 63 فیصد ہے جب کہ پرنٹ میں 49 فیصد لوگ دیکھتے ہیں۔


پنکج یچوری نے ’آن لائن مس انفارمیشن‘ کے عنوان سے اپنا پرزنٹیشن پیش کرتے ہوئے کہا کہ سچائی جاننا ایک مشکل امر ہے اور آن لائن اطلاع کے تئیں محتاط، ہوشیار اور بیدار مغز ہونا چاہئے کیوں کہ آن لائن اطلاع نیوز نہیں ہے۔ وہ صرف ایک اطلاع ہے اگر سچ بھی ہے تو اسے نیوز بننے میں وقت لگتا ہے۔ اطلاع کو نیوز بنانے سے پہلے فیکٹ چیک کرنا چاہئے، کوئی ثبوت ہے یا نہیں، اس وقت کون تھا، ذرائع کیا ہیں، اس اطلاع کو نیوز بنانے سے پہلے باوثوق ذرائع سے تصدیق کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نیوز کے لئے کنٹسکٹ ضروری ہے، اس کی تاریخ میں جانا ہوگا، غیر معمولی ہے یا نہیں اگر نارمل معاملہ ہے تو پھر نیوز نہیں بنے گی۔

امراجالا کے سابق ایگزی کیوٹیو ایڈیٹر سنجے ابھگیان نے کہا کہ صحافیوں کے لئے سی اے ایس ایک پیمانہ ہے جو ہیلتھ جرنلزم کے تعلق سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ صحیح معلومات عوام تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ صحت سے متعلق خبر کو جانچ پرکھ کر اس لئے بھی بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے عام لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی اے ایس خبروں کا ایک پیمانہ ہے جسے دواؤں کی جانچ پرکھ کے لئے کیمبرج یونیورسٹی نے شروع کیا تا کہ معتبریت قائم رکھی جاسکے۔


انہوں نے سماج میں بیداری کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بہت سی چیزیں ہم جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے ہم گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے سائنسی نظریہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میجک ریمیڈیز کے اشتہار پر 1954 سے پابندی ہے لیکن پھر اس طرح کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک سماج کے طور پر ہم نے کیا کیا۔ پروگرام کی نظامت یونیسیف کے کمیونی کیشن ہیڈ سونیا سرکار نے کی۔ اس کے علاوہ گروپ ڈسکشن بھی ہوئے اور گروپوں نے اپنے اپنے پرزنٹیشن بھی پیش کئے۔ میڈیا اہلکاروں کو سرٹیفیکٹ سے بھی نوازا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔